بہت دیر کی مہرباں ۔۔۔آتے آتے
صحرائے تھر میں 1992ء سے دریافت ہونے والا کوئلہ مقدار کے حساب سے 185 ارب ٹن ہے اور یوں دنیا میں کوئلہ کے ذخائر رکھنے والے ممالک میں پاکستان دوسرے نمبر پر ہے۔ جنوبی افریقہ میں واقع دنیا کے سب سے بڑے گیس فکشن پلانٹ کی لیبارٹری رپورٹ کے مطابق تھر کا کوئلہ ہی معیاری ہے۔ جسے استعمال میں لا کر ہم بجلی' گیس اور یوریا کھاد کے ذریعے اپنے ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔
بدقسمتی سے قدرت کے اس انمول تحفہ کو مختلف حکومتوں نے تقریباً عرصہ تیس سال سے التواء میں رکھا ہے۔ آج جب کہ پاکستان کے مایہ ناز سائنس دان ڈاکٹر ثمر مبارک نے قوم کو خوش خبری سنائی ہے کہ تھر کول منصوبے پر سائنس دان تیزی سے کام کر رہے ہیں۔ جولائی اگست تک پراجیکٹ گیس کی پیداوار شروع کر دے گا جبکہ پہلی ترجیح سستی بجلی پیدا کرنا ہے۔
تھرکول پراجیکٹ میں تیزی لانے کا فیصلہ خوش آئندہے۔ جب ہم ماضی میں نظر دوڑاتے ہیں تو آمر جنرل ضیاء الحق کے دور سے بجلی کی لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے اور شارٹ فال 5 ہزار میگا واٹ تک پہنچ چکا ہے۔ کسی بھی حکمران نے اس لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش نہ کی ہے۔ بجلی کی اس کمی کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ آبی ضروریات کے لئے کالا باغ ڈیم کی بنیاد آمر جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہی رکھ دی گئی تھی کالونیاں سڑکیں تعمیر کر لی گئی تھیں اور مشینری بھی سائیٹ پر پہنچ چکی تھی مگر نادیدہ ہاتھوں نے اس منصوبے کو شروع نہ ہونے دیا۔ اس دور کے گورنر سرحد فضل حق نے سب سے پہلے اس ڈیم کی مخالفت شروع کر دی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سندھی قوم پرست بھی اس احتجاج میں شامل ہوتے چلے گئے اور اس وطن دشمنی کے صلے میں سندھی قوم پرست سائیکلوں سے پراڈوں تک جا پہنچے اور گورنر فضل حق این۔ایل۔سی کے کنٹینروں سے ترقی کرتا ہوا ایف سولہ طیاروں کے ذریعے ہیروئن بیچ کر اپنی مادی تسکین کرتا رہا۔
قارئین آپ یقین کریں کہ ایف سولہ طیاروں نے اوور ہالنگ کے لیے امریکہ جانا تھا۔ ان میں فضل حق نے ہیروئن بھردی۔ نیویارک میں ان طیاروں نے لینڈ کرنا تھا۔ لیکن یہ طیارے مقررہ ایئرپورٹ سے کسی نامعلوم جگہ پر لینڈ کر گئے۔ مال سے خالی ہونے کے بعد جب یہ دوبارہ مقررہ مقام پر پہنچے تو خود امریکی حیران رہ گئے کہ امریکہ میں یہ کیسے ہو گیااور انہوں نے کس طرح امریکیوں کی آنکھوں میں دُھول جھونک ڈالی۔
یہ تھی ذاتی مفاد کی خاطروطن بیچنے والوں کی کہانی' ہمارا پیارا وطن قدرتی وسائل سے مالا مال ہے لیکن ہم نے اسے تصرف میں نہ لایا ہے۔ اگر تصرف میں لایا ہوتا تو ہم بھیک مانگنے کی بجائے بھیک دینے والے ممالک کی صف میں سرِ فہرست ہوتے۔
ایمی تھرکول پراجیکٹ سے ہم سالانہ بھارت کے مقابلہ میں ایک فیصد پیداوار حاصل کر رہے ہیں جبکہ بھارت ہم سے کوئلہ کی مقدار میں نصف ہے۔ ہمارے لیے باع شرم ہے کہ بھارت سالانہ 40 کروڑ ٹن کوئلہ کی پیداوار حاصل کر رہا ہے جبکہ ہم سالانہ 40 لاکھ ٹن پیداوار حاصل کر رہے ہیں۔
اگر تھرکول پراجیکٹ سے ہماری حکومت پوری ایمانداری سے استفادہ حاصل کرنے کی کوشش کرے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہماری توانائی کی ضروریات پانچ سو سال تک پوری ہو سکتی ہیں۔ ہم مشرق وسطیٰ کے تیل کی دولت سے مالا مال ممالک سے زیادہ دولت کما سکتے ہیں جس سے ہماری معیشت کا پہیہ تیزی سے گھومے گا ملک ترقی کرے گا عوام خوشحال ہوگی اور آنے والے وقت میں پیارا پاکستان امیرترین ممالک کی صف میں شامل ہوگا جس سے عوام بھی خوشحال ہو گی۔
دعا کیجئے کہ حکومت پاکستان نے جس طرح ہنگامی بنیادوں پر تھرکول پراجیکٹ سے پیداوار حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے وہ آخر تک اپنے اس مشن پر قائم رہے' گوکہ کافی دیر ہو چکی ہے ہم نے ماضی کے 64 سال اپنی دو نسلوں کے بھوک اور ننگ کی نذر کر دیئے ہیں۔
اگر ہمارے حکمرانوں کو ہوش آ گیا ہے کہ انہوں نے اپنی نسلوں کی بہتری کی خاطر بہت کچھ کر لیا ہے اب اس ملک کی غریب اور مجبور عوام کیلئے کچھ کرنا ہے تو رب تعالیٰ ان کی کوششوں کو ضرور جلا بخشے گا۔ ان کے گناہوں کاکفارہ ہوگا۔ دھرتی نے ہمارے حکمرانوں پر جو احسان کیے ہیں ان کا بدلہ ہو جائیگا۔ اس مملکت کی عوام خوشحال ہونگی۔ دعائیں حاکموں کو جائیں گی بخشش اللہ تعالیٰ کی ذات کریگی۔ مایوسی کفر ہے۔ غربت اور بے کسی کے سائے ضرور چھٹ جائیں گے موجودہ اور آنے والی نسلیں خوشحال زندگی گزاریں گی۔ لیکن میں ضرور کہوں گا کہ ۔'' بہت دیر کی مہرباں آتے آتے''۔
خدا آپ کا اور ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔