ملکی تباہی کے ذمہ دار

| |

ابتدائے آفرینش سے قوموں اور ملکوں کو تباہ و برباد کرنے کیلئے انکے دشمن مختلف طریقے اپناتے رہے ہیں۔ ان میں دو طریقوں پر ہر دور میں زیادہ زور دیا جاتا رہا ہے۔ پہلا طریقہ یہ ہے کہ جبر' دھونس اور طاقت کے ذریعے ملکوں پر قبضہ اور اس کی قوم کو صرف تابع فرمان ہی نہیں بلکہ غلام بنالیا جاتا ہے۔ دوسری صورت میں جنگ وجدل کی بجائے انکے بنیادی نظریات' جمعیت' تہذیب اور ملکی یکجہتی کو پروپیگنڈے' مالی امداد' تجارت' سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے ذریعے ملیا میٹ کیا جاتا ہے۔ مزید ستم گری یہ کہ اس قوم کو یہ زہر ہلاہل پینے کیلئے ''مقدر'' کے لکھے کا نام دیکر اسے قبول کرنے کیلئے آمادہ کر دیا جاتا ہے۔ دوسرا طریقہ پہلے سے زیادہ موثر اور اثرانگیز ثابت ہوتا ہے زمانہ جدید میں غریب اور کمزور ممالک کو اسیر کرنے کیلئے سامراجی قوتوں نے بالعموم یہی طریقہ اپنایا ہوا ہے۔ جبکہ مسلمانوں کے ممالک کو دونوں طریقوں سے قابو کر کے کٹھ پتلیوں کی طرح نچایا ہوا ہے۔ خاص طور پر پاکستان اہل مغرب اور انکے حواریوں کی نگاہ میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے۔ کیونکہ یہ اپنی جغرافیائی اور نظریاتی ساخت کے اعتبار سے انتہائی اہم ہیں جبکہ اسے اپنی اصل منزل سے بھٹکا ہوا قرار دینے کیلئے مختلف جتن آزمائے جا رہے ہیں۔ آ ج کے کالم میں قارئین خاص طور پر نوجوان نسل توجہ دلائی جا رہی کہ۔
کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
انکے آباء نے تقریباً دو صدیوں کی جدوجہد مسلسل اور لازوال قربانیاں دیکر یہ مملک خداداد پاکستان کیوں اور کس لیے حاصل کی تھی؟
علم السیاست(پولیٹکل سائنس) کے مطابق مملکت یا ریاست سے یہ مفہوم لیا جاتا ہے کہ کرہ ارض کے ایک خطے پر بسنے والے افراد انفرادی حیثیت کی بجائے اجتماعی زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کر کے ایسا نظم و نسق قائم کریں جس سے مملکت مستحکم اور اس میں بسنے والے خوشحال اور آرام دہ زندگی بسر کر سکیں۔ لیکن اس ملک کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ اس کے باشندوں کا تصور زندگی کیا ہے۔ کیونکہ نظریات اور اعتقادات افراد کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے۔ ایسی ریاست کو قومی یا وطنی ریاست یا مملکت کہا جاتا ہے۔ اس کے برعکس مملکت یا ریاست کا ایک قوی تصور اللہ تعالیٰ کی فرستادہ کتابوں خاص طور پر قرآن حکیم میں موجود ہے۔ جس کی تشریح نبی آخرالزمان، فخر موجودات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عمل پیہم کے ساتھ اپنی حیات مقدسہ میں مدینہ منورہ میں منفرد ریاست قائم کر کے نہ صرف اس دور بلکہ آنے والے تمام ادوار کیلئے مثال بنا دی تھی۔ اس تسلسل کو خلفائے راشدین نے اپنے اپنے دور حکومتوں میں انتہائی مستحکم طور پر قائم رکھا بلکہ اسے وسعت بھی دی۔ اس نظریہ کے مطابق ایک ایسا نظریہ حیات اور فلسفہ زندگی رکھنے والے اپنی منفرد حیثیت اجتماعی کو ایک خاص شکل میں قائم رکھنے کا فیصلہ کریں۔
اس پس منظر میں برصغیر(متحدہ ہندوستان) کی انگریزوں سے آزادی کے ساتھ ہی نئے ہندوستان کے متعلق دو خیالات سامنے آئے۔ ہندوئوں کو اپنی عددی واضح اکثریت کے پیش نظر ایک قومی یا وطنی مملکت کا قیام تھا۔اس کے برعکس اس خطہ میں بسنے والے مسلمانوں کی بھاری اکثریت نے یہ تہیہ کر لیا تھا کہ وہ برصغیر میں ایک ایسی مملکت کا قیام عمل میںلائیں گے جس کا بنیادی تصور قرآن حکیم نے اور عملی مظاہرہ حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کر کے دکھایا ہے۔ اس کو خاص طور پر انگریزوں، ہندوئوں اور نیشنلسٹ مسلمانوں کو سمجھانے کیلئے ابتدا میں سرسید احمد خان بعدازاں علامہ اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح نے دو قومی تصور کے ساتھ نظریاتی مملکت (IDEOLOGCAL STATE) قرار دیا۔ وہ مملکت جس کی بنیاد ایک نظریہ حیات پر رکھی ہو۔ (اسی لیے اس تصور کو دل و دماغ سے قبول کرنے والوں کو نظریاتی افراد کہا جاتا ہے) اس سے نظریہ پاکستان کی اصطلاح وجود میں آئی۔یعنی ایسا ملک جو فرد یا افراد کیلئے ہی نہیں بلکہ برصغیر میں بسنے والے افراد کی اکثریت کے یا وہاں کی پوری آبادی کے ذاتی خیالات کا مقاصد کے مطابق بھی نہیں ہوگا۔ بلکہ دین اسلام کے فروغ اور اسکے وقار کی سربلندی کیلئے قائم کیا جائے گا۔ ان دونظریاتی اختلافات نے برصغیر پاک و ہند کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ اسی لیے قائداعظم نے مسلم لیگ کے پرچم تلے، مسلمانوں کے نظریے کو بروئے کار لانے کیلئے انگریزوں اور ہندوئوں کے ساتھ ساتھ قوم پرست مسلمانوں سے دس سال سے زائد عرصہ تک انتہائی صبرواستقلال سے لڑائی لڑی۔ اس سلسلہ میں انکا اور انکی جماعت مسلم لیگ کا ذہن اور منشور اسقدر واضح تھا کہ اس کے سمجھنے میں کوئی دشواری پیش آئی اور نہ ہی اس کو پیش کرنے میں کسی قسم کا الجھائو پیش آیا۔
اس نظریے کو قائداعظم نے 8 مارچ 1944ء کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں خطاب کرتے ہوئے اس طرح پیش کیا کہ پاکستان اس دن ہی وجود میں آ گیا تھا جب ہندوستان میں ہزاروں سال پہلے ، پہلا غیر مسلم مسلمان ہوا تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب یہاں مسلمانوں کی حکومت قائم نہیں ہوئی تھی۔ قارئین محترم یہ تھا وہ دو قومی نظریہ جس کے فلسفہ کی بنیاد پر مسلمانان برصغیر کیلئے ایک علیحدہ مملکت پاکستان کا تصور پیش کیا گیا تھا۔ اس نظریے اور تصور پر ہندوستان بھر کے مسلمانوں نے 1946ء کے عام انتخابات میں 88.8 فیصد ووٹ دیکر بھرپور اعتمادمہیا کیا۔ اس اعتماد کو قابل قبول کرانے کیلئے قائداعظم نے 27 نومبر1945ء کو پشاور کے ایڈورڈ کالج میں تقریر کرتے ہوئے ہندوئوں اور مسلمانوں کے بنیادی اختلافات کا ذکر کرتے ہوئے کیا تھا کہ ہم دونوں یعنی مسلمانوں اور ہندوئوں میں صرف مذہب کا فرق ہی نہیں بلکہ ہمارا کلچر، تہذیب و تمدن، روزمرہ کے مشاغل، کھانا پینا اور رہن سہن بھی الگ ہے۔ ہمارا دین اسلام ہمیں ایک مکمل ضابطہ حیات دیتا ہے۔
اسی مقصد کے حصول کیلئے مسلم لیگ سرگرم عمل تھی۔ اس کی واضح جھلک 1930ء سے 1947ء کے دوران اس کے اہم اجلاسوں کی کاروائیوں اور قراردادوں سے دکھائی دیتی ہے۔ مثلاً 30 دسمبر1930ء کے الیہ آباد کے اہم اجلاس کی علامہ اقبال نے صدارت کرتے ہوئے برطانوی ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ مملکت کا تصور پیش کیا۔ اسی طرح مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس منعقدہ لاہور 23 مارچ 1940ء تحریک حصول پاکستان میں ایک اہم موڑ ہے۔ لیکن اسے ہرگز یوم پاکستان نہیں کہا جا سکتا۔ جبکہ ایک ڈکٹیٹر نے اپنے غیر آئینی اور غیر اخلاقی عمل پر پردہ ڈالنے کیلئے اسے یوم پاکستان کا نام دے دیا۔ 1940 سے 1958 تک اس نام کا کہیں وجود نہ تھا۔ اس کی حقیقت اس طرح بیان کی جا سکتی ہے۔ فروری 1956ء کو دستور ساز اسمبلی نے پاکستان کا پہلا آئین بخیروعافیت منظور کیا۔ اس کے نفاذ کیلئے 23 مارچ کی تاریخ اسکی تاریخی اہمیت سے مقرر کی گئی۔ پاکستان اسلامیہ جمہوریہ قرار پاگیا اور 23 مارچ یوم جمہوریہ قرار پایا اسی طرح جس طرح دیگر جمہوری ممالک اپنے یوم جمہوری تاسیس کو اہم قرار دیتے ہیں۔ اکتوبر 1958ء کو اس وقت کی افواج پاکستان کے کمانڈانچیف جنرل ایوب خان نے صدر اسکندر مرزا کی آشیر باد سے ملک گیر مارشل لاء کا نفاذ کر دیا۔ 1956ء کے آئین کو منسوخ کر دیا گیا۔ 23 مارچ کے یوم جمہوریہ کو یوم پاکستان کا نام دے دیا گیا۔ اس طرح آئین شکن نے اپنے غیر آئینی اور غیر قانونی قبیح جرم پر پردہ ڈالنے کی مزموم کوشش کی وہ کسی حد تک کامیاب ہو گیا۔ نئی ہی نہیں پرانی نسل بھی اصل یوم جمہوریہ کو بھول گئی جبکہ 23 مارچ کو یوم پاکستان قرار دینے سے تلخ نتائج برآمد ہوئے جو ہنوز بھی جاری ہیں۔ 23 مارچ 1940 کے قرارداد کے متن سے علیحدگی پسند عناصر فائندہ اٹھا رہے ہیں۔ جبکہ اس میں لفظ پاکستان موجود بھی نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے تحریک حصول پاکستان کے عرصہ کے دوران مختلف مدوجذر پیدا ہوتے رہے۔ بالآخر 1946 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نے ایک پاکستان کا مطالبہ پر حصہ لیا اس میں زبردست کامیابی حاصل ہوئی۔ 9 اپریل 1946ء کو نومنتخب شدہ اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں اور مسلم لیگ کی مجلس عاملہ نے قائداعظم کی زیر صدارت دہلی کے امپریل ہوٹل میں ایک واضح اور دو ٹوک قرار داد منظور کی جس کے مطابق ''ہندوستان کے شمال مشرق میں واقع بنگال اور آسام اور شمال مغرب میں واقع پنجاب، سرحد، بلوچستان اور سندھ صوبہ جات جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں واحد مقتدرہ آزاد مملکت کی تشکیل کی جائے اور اس امر کا واضح اعلان کیا جائے کہ پاکستان کا قیام بلا تاخیر عمل میں لایا جائے گا۔
بحرحال ان گنت اور لازوال قربانیوں کے نتیجہ میں پاکستان قائم ہو گیا لیکن کٹا پھٹا جو نہ صرف بیگانوں بلکہ اپنوں کا زخم خوردہ بھی تھا بقول منیرنیازی۔
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
قیام وطن کے بعد ہندوستان نے مخالفت میں نہ صرف شدت پیدا کر لی بلکہ اس میں سازشوں کو بھی شامل کر لیا۔ دوسری طرف وہ''اپنے'' جنہوں نے تحریک حصول پاکستان کے موقع پر کانگریس کے دوش بدوش شامل ہو کر اس کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا انہوں نے قیام پاکستان کے بعد پینترا بدل کر اپنی مذموم حرکتیں شروع کر دیں۔ ان میں سے بعض آج بھی یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ہم اور ہمارے بڑے پاکستان کے قیام کے گناہ میں شریک نہ تھے۔ بعض نے بادل نخواستہ اسے ایک کڑوی گولی سمجھ کر نگل تو لیا لیکن مختلف تاویلوں سے مخالفت کا زہر بدستور پھیلا رہے ہیں۔ بدقسمتی سے انہیں یہ سب کچھ کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ کیا موجودہ ہندوستان میں مسلم لیگ اور ان کے قائدین کو وہ مقام حاصل ہے جو پاکستان میں اس کے بنیادی نظریے کے مخالفوں کو حاصل ہے۔ پاکستان کے مخالفین کے دل و دماغ میں مسلم قومیت کے واحد نظریے کی کیل آج تک گڑی ہوئی ہے لہٰذا انہوں نے اسے زک پہنچانے کیلئے علاقائی، نسلی، لسانی،نام نہاد تہذیبی اور مذہبی گروہوں کو قوم کا نام دینا شروع کیا ہوا ہے۔ ضرورت کے بجائے نسلی اور لسانی تفریق پر صوبوں کے قیام کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ یاد رہے یہ عناصر پاکستان کے قیام سے پہلے ہندوستان بھر میں بسنے والوں کو بلارنگ و نسل، زبان، تہذیب اور مذہب سب کو ایک قوم کہتے تھے۔اب پاکستان میں رہنے والوں کو ایک پاکستانی قوم ماننے کے لئے آمادہ نہیں ہیں۔ ان میں بعض وڈیروں، جاگیرداروں، سرداروں، نواب اور نوابزادوں اور بڑے بڑے زمینداروں کے علاوہ ماضی کے کمیونسٹوں، سوشلسٹوں اور حال کے روشن خیالوں کے علاوہ قوم پرست بعض علماء بھی شامل ہیں۔ان سب نے مل کر پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کو کمزور کرنے کے علاوہ اس پر قبضہ کرنے کا عمل شروع کیا ہوا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ نے اس موقع پر سیاسی مصلحتوں کا لبادہ زیب تن کیا ہوا ہے۔ اس نے اس تمام عرصہ و حالات میں مائع کی طرح ہر صاحب اقتدار کے سانچے میں ڈھل جانے کی روش اپنائے رکھی۔جماعت کے کارکنوں کی ذہنی تربیت کا کوئی انتظام نہ کیا گیا۔ وہ کرتے بھی کیونکر ان میں سے اکثر خود اپنا کوئی نظریہ نہیں رکھتے تھے سوائے حصول اقتدار کے۔ اس کا یہی نتیجہ نکلنا تھا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قائداعظم، قائد ملت لیاقت علی خان اور سردار عبدالرب نشتر کے بعد مسلم لیگ کو مخلص قیادت میسر نہ آئی۔ البتہ جدید دور میں میاں محمد نوازشریف نے مسلم لیگ کو قائداعظم کے تصور کی حامل سیاسی جماعت بنانے کی کوششیں شروع کی ہوئی ہیں۔ لیکن ان کی راہ میں موروثی سیاست دانوں کے علاوہ نو دولتیوں اور ابن الوقتوں نے طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کی ہوئی ہیں۔ دیکھئے وہ کس طرح ان سے نبردآزما ہو کر کامیاب ہوتے ہیں؟۔ آج کل مختلف سمتوں سے پاکستان پر نظریاتی حملے کیے جا رہے ہیں۔ ایک طرف بعض غیر ملکی این جی اوز نے روشن خیالوں اور لبرازم یعنی اعتدال پرستوں کے ذریعے قائداعظم کے حوالے سے خاص طور پر ان کی گیارہ اگست 1947کی دستور ساز اسمبلی میں کی گئی تقریر کے کچھ اقتصابات کو سیاق و سباق اور اصل پس منظر میں دیکھنے کی بجائے اپنے مطلب کے مطابق بیان کر کے خاص طور پر نئی نسل کو اصل منزل سے ہٹانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ لہٰذا لازم ہے کہ ذرا اس تقریر کا جائزہ لیں جو انہوں نے نئی مملکت کے باشندوں سے خطاب کرتے ہوئے کی تھی۔''تم آزاد ہو، تمہیں اس امر کی کامل آزادی ہے کہ تم اپنے مندروں میں جائو،یا مسجدوں میں، یا مملکت پاکستان میں موجود کسی اور عبادت گاہ میں، تمہاری ذات یا عقیدہ کچھ بھی ہو امور مملکت کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوگا۔۔۔۔میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اپنے سامنے یہ نصب العین رکھنا چاہیے کہ ایک وقت بعد نہ ہندو، ہندو رہے گا نہ مسلمان، مسلمان۔ مذہبی نقطہ نگاہ سے نہیں کیونکہ وہ تو ہر فرد کے ذاتی عقیدے کا سوال ہے''۔
قائداعظم کے ان الفاظ کو خدا نخواستہ وحی کی طرح پیش کر کے کہا جاتا ہے کہ دیکھئے اسلام میں قومیت کا معیار ایمان میں اشتراک نہیں۔ اس لئے تخلیق پاکستان کی اصل روح دو قومی نظریہ کی کوئی حقیقت نہیں، بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر یہ کہا جاتا ہے کہ مذہب کو سیاست سے کوئی واسطہ نہیں۔یعنی قائداعظم کے حوالے سے اس ستون کو گرایا جا رہا ہے جس پر پاکستان کی عمارت استوار ہوئی تھی۔آئیے ذرا دیکھیں کہ اس سے صورتحال کیا سامنے آتی ہے۔اگر مندرجہ بالا الفاظ کسی ایسے شخص کی زبان سے نکلے ہوں جس نے نظریہ قومیت کے متعلق اس سے پہلے اور بعد میں کچھ نہ کہا ہو۔ یا ماضی قریب میں متحدہ قومیت کا قائل رہا ہو۔تو ان الفاظ سے یہ نتیجہ نکالاجا سکتا ہے کہ کہنے والا کا مطلب یہ ہے کہ مذہب کو سیاست سے کوئی واسطہ نہیں اور قومیت کا معیار مذہب سے نہیں علاقے سے ہے۔ لیکن جب اس حقیقت کو پیش نظر رکھا جائے کہ یہ الفاظ اس شخص کی زبان سے نکلے ہیں جو کم از کم دس برس تک تواتر سے انھیں دو بنیادوں پر اپنے اور بیگانوں سے نبردآزما رہا ہو۔ تو اس قسم کے نتائج اخذ کرنے میں جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے۔ ہم نے بعض لوگوں کو یہاں تک کہتے سنا ہے کہ بے شک مسٹر جناح دس برس تک یہ دعویٰ کرتے رہے۔لیکن درحقیقت یہ ان کا ایک وکیلانا حربہ تھا جو انھوں نے اپنا مقدمہ جیتنے کیلئے تیار کیا تھا۔دوسرے الفاظ میں گویا کے مسافر کے پاس ریلوے کا ایک ٹکٹ تھا جسے سفر کے اختتام پر ریلوے ٹکٹ کلیکٹر کے حوالے کر دیا گیا تھا،کیونکہ جس مقصد کیلئے اسے حاصل کیا گیا تھا وہ پورا ہو گیا اس کے بعد اس کی کوئی حیثیت اور ضرورت باقی نہ رہی۔ ان تمام باتوں کے باوجود اس کی گئی تقریر کی اہمیت اپنی جگہ بددستور موجود ہے۔ لہٰذا یہ دیکھنا ازحد لازم ہے کہ جن دنوں انہوں نے یہ تقریر کی تھی اس وقت وطن کے کیا حالات تھے اور ان حالات میں انہیں سربراہ مملکت کی حیثیت سے کیا کہنا اور کیا کرنا چاہیے تھا۔
قیام پاکستان سے چند ہفتے قبل ہی غیر منقسم ہندوستان میں ہندو اور سکھوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل عام شروع ہو گیا تھا۔ اس سے مسلمانوں کے دل و دماغ میں خوف کے ایسے جذبات ابھرے کہ انہوں نے اسی میں اپنی عافیت سمجھی کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پاکستان ہجرت کر لیں۔اس میں قانون تقسیم پنجاب اور غیر منقسم علاقوں کے مسلمان شامل تھے۔کیونکہ غیر منقسم حصے کے مسلمانوں نے پاکستان کے حق میں سو فیصد ووٹ دیئے تھے۔ لہٰذا خاص طور پر ہندو ان سے اس کا انتقام لے رہے تھے۔ لہٰذا وہ بھی پاکستان کی طرف چل پڑے۔ لیکن ہندو اور سکھ درندوں نے ان بے سروساماں مسافروں کو نہ چھوڑا۔ تمام راستوں پر قتل و غارت گری اور لوٹ مار کی وارداتیں تواتر سے ہوتی رہیں۔ ان کے معصوم بچوں، کڑیل جوانوں اور ضعیف بزرگوں کو ہندوستان کی فوج اور پولیس کی موجودگی میں بے دردی سے قتل کیا جا رہا تھا۔ ٹرینوں سے آنے والے زندہ انسانوں کی بجائے ان کی لاشوں کے ٹکڑے برآمد ہونے لگے۔ ظاہر ہے اس کا ردِ عمل پاکستان کے بعض حصوں میں ہوا۔ اس سے یہاں کے غیر مسلم باشندوں بالخصوص صوبہ سندھ اور مشرقی پاکستان جہاں اقلیتوں کی بڑی تعداد موجود تھی کے دلوں میں خوف و ہراس، بے اعتمادی اور بے یقینی کے وسوسے پیدا ہونے لگے۔اس موقع پر ٹھنڈے دل سے سوچئے کہ ایک ایسی مملکت جس کی عمر ابھی ایک دن بھی نہیں ہوئی تھی، وہ اس قسم کے لرزہ انگیز حالات سے دو چار ہو کہ نہ اس کے پاس ابھی فوج ہو، نہ اسلحہ، نہ سامان اور نہ ہی نقدی تو اس کے سربراہ کے دل پر اس موقع پر کیا گزرتی ہوگی۔ اس کے ساتھ ہی قاری کو یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ پاکستان کے اندر بھی ایسے عناصر موجود تھے جو ایک طرف غیر مسلموں کے دل میں خوف و ہراس پیدا کر رہے تھے تو دوسری طرف انہیں اشتعال بھی دلا رہے تھے۔ دوسری طرف ہندوستان کے اخبارات، رسائل اور ریڈیو یہاں کی غیر مسلم اقلیتوں کے خلاف مظالم کی فرضی داستانیں ہندوستان کے مسلمانوں سے انتقام کی آگ کو مزید بھڑکا رہے تھے۔اس لیے ضروری تھا کہ پاکستان کی غیر مسلموں کی اقلیتوں کو پورا پورا یقین دلایا جائے کہ وہ یہاں ہر طرح سے محفوظ رہیں گی۔ اور مذہب کی بنیاد پر ان سے کوئی ناروا سلوک نہیں کیا جائے گا۔ یہ تھے وہ حالات جس میں قائداعظم کو یہ تقریر کرنا پڑی۔
ہم نے جو اوپر کہا ہے کہ قائداعظم کی اس تقریر کا مقصد غیر مسلم اقلیتوں کو یہ یقین دلانا تھا کہ ان سے رواداری اور حسن سلوک کا مظاہرہ کیا جائے گا۔ یہ ہماری تعبیر نہیں اس کی تشریح خود قائد نے تین دن بعد 14 اگست 1947ء کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا افتتاح کرتے ہوئے کی۔''شہنشاہ اکبر اعظم نے غیر مسلموں کے ساتھ جس مذہبی رواداری اور حسن سلوک کا ثبوت دیا تھا وہ ہمارے ہاں کوئی بعد کا وضح کردہ مسلک نہیں تھا۔ اس کی اصل شکل ہمارے ہاں تیرہ سو سال پہلے سے چلی آرہی ہے۔ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہودیوں اور عیسائیوں پر فتح حاصل کرنے کے بعد صرف لفظاً ہی نہیں بلکہ عملاً انتہائی رواداری برتی اور ان کے مذہب اور عقائد کو عزت اور احترام کی نظروں سے دیکھا۔ مسلمانوں کی تاریخ اس کی شاہد ہے کہ انہوں نے جہاں جہاں بھی حکومت کی(غیر مسلموں کے ساتھ رواداری اور حسن سلوک) انہی عظیم انسانیت ساز اصولوں پر عمل کیا لہٰذا ان پر ہمیں بھی عمل کرنا چاہیے۔ اسی طرح 30 اکتوبر 1947ء کو پنجاب یونیورسٹی سٹیڈیم میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا''اسلام ہر مسلمان کا فریضہ قرار دیتا ہے کہ وہ اپنے ہمسائیوں اور اقلیتوں کی پوری پوری حفاظت کرے خواہ ان کا عقیدہ کچھ ہی کیوں نہ ہو۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے باوجود ہمیں یہاں کی اقلیتوں کا پورا پورا تحفظ کرنا چاہیے۔ہمارا یہی رویہ ہمارے لیے باعث عزت و افتخار ہونا چاہیے''۔
جبکہ دوسری طرف قائداعظم اور مسلم لیگ پاکستان میں اسلام کے اس اعلیٰ و ارفع نظام کو نافذ کرنے میں ذرا برابر بھی شک و شبہ میں مبتلا نہیں تھے۔ جو ہر دور کے بنیادی تقاضوں کو بااحسن طریقے سے حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اسی لیے پاکستان کو اسلامی فلاحی، جمہوری مملکت قرار دیا گیا تھا۔ ملک کے معروف تاریخ دان اور دانشور ڈاکٹر صفدر محمود کے مرتب کردہ ریکارڈ کے مطابق قائداعظم نے پاکستان کے قیام سے قبل 28بار واضح اور غیر ممہم انداز میں پاکستان میں نظریہ اسلام کے مطابق نظام مملکت کا ذکر کیا تھا اور اس کے قیام کے بعد اپنی ایک سال 27 دن کی زندگی میں پانچ چھ بار واضح اور دو ٹوک نظام اسلام کی بات کی تھی۔ ریکارڈ کے مطابق فروری 1948ء میں انہوں نے امریکہ کے عوام کے نام اپنے پیغام میں کہا ''پاکستان کی آئین ساز اسمبلی نے ابھی آئین مرتب کرنا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ اس آئین کی آخری شکل کیا ہوگی۔لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ جمہوری طرز کا آئین ہوگا۔ جس میں اسلام کے بنیادی اصول موجود ہونگے یہ اصول آج بھی اسی طرح عملی زندگی میں قابل قبول ہیں جس طرح تیرہ سو سال پہلے تھے۔اسلام اور اس کی مثالیت نے ہمیں جمہوریت کا درس دیا ہے۔ اس نے اسلامی مساوات، عدل، اور ہر شخص سے منصفانہ برتائو سکھایا ہے۔ ہم ان درخشاں روایات کے وارث ہیں اور پاکستان کا آئندہ آئین بنانے والوں کی حیثیت میں ہمیں اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کا پورا احساس ہے۔ بہرحال پاکستان ایسی مملکت نہیں ہوگا جس میں مذہبی پیشوا مامورمن اللہ کے طور پر حکومت کریں گے۔ ہمارے ہاں بہت سے غیر مسلم ہیں، ہندو، عیسائی اور پارسی وغیرہ وغیرہ لیکن وہ سب پاکستانی ہیں۔ وہ تمام دوسرے شہریوں کی طرح یکساں حقوق اور مراعات سے بہرہ ور ہونگے اور پاکستان کے معاملات میں کماحقہ' کردار ادا کریں گے(ظہور پاکستان چوہدری محمد علی)۔
پاکستان کے بہت سے ناقدین اور نام نہاد بہی خواہ 1988 تک اپنے آپ کو ترقی پسند، کمیونسٹ، سوشلسٹ کہلا کر مزدوروں اور کسانوں کے اپنے تئیں ہمدردو غمگسار جتاتے تھے۔ حالانکہ ان میں سے اکثر کا تعلق بڑے بڑے ذمہ دار اور سرمایہ دار گھرانوں سے تھا ان کی نجی زندگی کسی بھی طور شاہانہ انداز سے کمتر نہیں تھی۔ یہ تمام سوویٹ یونین روس کے کیمپ میں شامل تھے نظریاتی طور پر اپنے آپ کو مغرب خاص طور پر امریکہ کا شدید مخالف کہتے تھے۔ لیکن سوویٹ روس کے سکوت کے بعد روشن خیالی کے لبادے میں امریکہ اور مغرب کے ظالمانہ سرمایہ دارانہ نظام کے نہ صرف حامی بلکہ ان کے وکیل بن گئے۔ تیسری دنیا خاص طور پر مظلوم مسلمانوں کو مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کی چکا چوند سے ان کو اسیر کرنے کے در پے ہیں۔ اس کیلئے سرمایہ اور وسائل کا بہتا ہوا دریا مختلف شکلوں میں شکلوں میں موجود ہے۔ وہ پاکستان کو اس کے بنیادی نظریے سے بھٹکا کر تباہی و بربادی کے دہانے پر لے جا رہے ہیں۔ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ان سب کا وہی منشور و پروگرام ہے جو مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے والوں کا تھا۔ وہاں بنگالی قوم کا نعرہ بلند کیا گیا تھا۔اسی طرح موجودہ پاکستان میں لسانی بنیادوں پر علیحدہ قوموں کے تصور کو شدومد کے ساتھ پھیلایا جا رہا ہے۔ایک پاکستانی قوم کا تصور ان کے کیلئے سہانِ روح بنا ہوا ہے۔ طرفہ تماشہ یہ کہ یہ اور ان کے اکثر بزرگ متحدہ ہندوستان میں بلا تفریق رنگ و نسل، زبان، تہذیب و تمدن اور روزمرہ کے معمولات میں واضح اختلافات کے باوجود ایک قوم کے نہ صرف پُرزور حامی تھے بلکہ ان کے ترجمان اور رقیب بھی تھے۔ ایک قوم کیلئے انہوں نے قرآن حکیم کے اٹل فیصلے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دو ٹوک عمل کو کہ کفر اور اسلام دو علیحدہ ملت ہیں یہ کبھی ایک نہیں ہو سکتے کو پسِ پشت ڈال دیا تھا۔
اب بعض لوگ مختلف قومیتوں کے نام پاکستان کی صوبائی تقسیم چاہتے ہیں لیکن صرف پنجاب کی حد تک۔ اس کیلئے اس علاقے کے رہنے والوں کی تمنا اور آرزو کو ایک جمہوری اور متمدن معاشرے میں قابل برداشت سمجھا جاتا ہے لیکن سندھ کے بعض ''بیٹے'' اور پختونخواہ کے ''سپوت'' اپنے علاقے میں صوبائی تقسیم کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں جبکہ پنجاب کی تقسیم کو اجر و ثواب قرار دیتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ دوسری طرف وہ جنوبی اور مغربی پنجاب میں بننے والے اہم منصوبوں کی مخالفت کرنے میں ہر حدود کو کراس کر رہے ہیں۔حتیٰ کہ وہ فیڈریشن کو دائو پر لگا دینے کا کھلے عام اعلان بھی کرتے رہتے ہیں۔ کس کو معلوم نہیں کہ کالا باغ ڈیم اور گریٹر کینال ''سرائیکستان'' نام سے علیحدہ صوبہ بنانے والوں کے مجوزہ نقشے میں ان کے علاقے میں تعمیر ہونگے۔ اگرچہ ان منصوبوں سے پورے ملک کو فائدہ ہوگا لیکن خاص طور پر جنوب مغربی پنجاب کے اضلاع میانوالی، خوشاب، بھکر، لیہ کے علاوہ رحیم یار خان، پاک پتن، بہاولپور، رحیم یارخاں، بہاولنگر کے علاقے اور ان کے باشندوں کیلئے خوشحالی اور ترقی کی میراج ثابت ہونگے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ملک میں کیوں کرایا جا رہا ہے؟۔ اگر فیڈریشن کی زنجیر کہنے والی پیپلز پارٹی اور پاکستان کی بہی خواہ اے این پی سرائیکی قوم کی حقیقی ہمدرد اور خیرخواہ ہے تو فوری طور پر کالا باغ ڈیم کی تعمیر اور گریٹر کینال کی تکمیل کرائے۔ورنہ ایسی باتیں نہ کی جائیں جس سے مجموعی طور پر سالمیت وطن کو نقصان پہنچے۔

Posted by Bhakkar Times on 11:46 PM. Filed under , . You can follow any responses to this entry through the RSS 2.0. Feel free to leave a response

0 comments for "ملکی تباہی کے ذمہ دار"

Leave a reply

Qalam Qabela