جان ملٹن' گمشدہ جنت اور نجاتِ انسانی
what it me is dark illumine
what is low raise and support'
ترجمہ:۔ اے خدا! میری ذات کے اندھیرے کو روشنی میں بدل دے' اور میری ذات کی پستی کو بلندی و سرفرازی میں بدل دے۔(جان ملٹن)
علامہ اقبال کی شاعری میں جا بجا خودی کا درس ملتا ہے۔ خودی کیا ہے؟ اپنے نفس سے آگاہی' اپنی ذات اور اپنے آپ سے آگاہی' اپنے ضمیر کو روشن کرنا اور سب سے بڑھ کر اپنی ذات میں موجود شہ رگ سے بھی زیادہ قریب باری تعالیٰ کی ہستی کی معرفت حاصل کرنا اور مشہورومعروف انگریزی شاعرجان ملٹن یہ بات بخوبی جانتا تھا۔ وہ اپنی ابتدائی زندگی سے ہی اپنی ذات کو خداتعالیٰ کیطرف سے وریعت کردہ امانت سمجھتا ہے اسکی پرورش مذہبی ماحول میں ہوئی وہ انگریزی زبان کا سب سے زیادہ باعلم شاعر تھا۔ اس کا تعلق سترہویں صدی عیسوی (1608-1674) سے تھا۔اس نے خود سپردگی کی زندگی گزاری۔ اس نے اپنے آپ کو خدا اور انسان کی خدمت کے لیے وقف کر دیا تھا۔ خدا تعالیٰ کی ذات اوراسکے انصاف پر اسکے غیر متزلزل یقین نے اس کو چٹان کی مانند سخت حتیٰ کہ مندی بنا دیا تھا۔ اسے اپنی زندگی میں بہت سے مصائب کا سامنا کرنا پڑا مثلاً وہ آخری عمر میں اپنی ذہنی توازن بگڑا اور لوگوں کی لعن طعن اور برے دنوں کا شکار رہا اور خداتعالیٰ نے اس کو آزمائشوں کی بھٹی میں ڈالا لیکن پھر بھی فولاد کی طرح خدا تعالیٰ کی ذات پر غیر متزلزل یقین نے اس کو تاقیامت ثابت قدم رکھا۔ اس کی قلم نے ہمیشہ امید اور رجائیت کا پیغام دیا۔
"What though the field be lost?
All is not lost,"
ترجمہ:۔کیا ہوااگر کچھ اختیار' طاقت یا علاقہ ہاتھ سے چھن گیا کہ ابھی تو سب کچھ باقی ہے۔
بقول علامہ موصوف۔
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
ملٹن کا قلم شعروں کی صورت میں برائی' ظلم' جھوٹ اور منافقت کے خلاف ہمیشہ زہر اگلتا رہا اس نے تمام اخلاقی زوائل کے خلاف ابدی صلیبی جنگیں چھیڑنے کا اعلان کیا۔ اس کا مذہب اور سیاست میں پائی جانے والی کرپشن' ظلم اور استحصال کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے بسر کی اور برائی کے خلاف ابدی جہاد کو اپنی شاعری کا مرکز و محور بنا لیا ایک مقام وہ کہتا ہے۔
"Follen Cherub to be weak is miserable"
ترجمہ:۔کمزور لوگوں کا کمزور رہنا بدحالی اور تباہی کی علامت ہے۔ ملٹن کی شاعری میں پائے جانے والی بہت سی خصوصیات کے علاوہ سب سے زیادہ چار خصوصیات نمایاں ہیں اور ان چار خصوصیات میں کوئی بھی شاعر ملٹن کا مقابلہ نہیں کر سکتا حتیٰ کہ شیکسپیئر بھی نہیں۔
1۔Grond Style (انتہائی شاندار اور جاندار شاعرانہ طرزِ بیان)
2۔Sublimity in thought and expression
3۔ High Seriusness(خیال اور اظہار کی بلند خیالی)۔
4۔ The Greatest Epic poet and Greatest Epic is on his credit
انگریزی کا سب سے عظم رزمیہ شاعر اور انگریزی زبان کی سب سے طویل رزمیہ نظم (paradise Lost) کا مصنف۔
ملٹن کی ان چار منفرد اور جداگانہ شاعرانہ خصوصیات کا مسلمہ ثبوت ان کی شاہکار اور مشہور زمانہ شاعرانہ تصنیف "Paradise Lost" سے ملتا ہے۔ "Paradise Lost" یعنی ''گمشدہ جنت''12 کتابوں پر مشتمل ایک طویل Epic Poem یعنی رزمیہ نظم ہے۔ Epic Poem ایک طویل بیانیہ نظم ہوتی ہے جس میں ایک عظیم قوم کی عظیم ترین شخصیات کے بہادرانہ کارنامے اور مہم جویانہ واقعات بیان کیے جاتے ہیں۔ Paradise Lost انگریزی زبان کی سب سے طویل رزمیہ نظم ہے اور اس میں Grand Style کا مسلسل اور بھرپور استعمال ہے اور یہ نظم بلندی خیال اور سنجیدہ ترین موضوعات سے بھرپور ہے اور دنیا میں کوئی بھی نظم Paradise Lost سے زیادہ بلند خیالی اور سنجیدہ ترین موضوعات سے بھرپور نہیں ہے۔ کیونکہ اس کا موضوع انسان کا اس کے گناہ کیوجہ سے اس کے ابدی گھر یعنی جنت سے نکالا جانا ہے اور زمیں کیطرف بھیجنا ہے یعنی حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہ السلام کا جنت سے نکالا جانا اور پھر زمین کیطرف مبعوث کرنا۔ اس کے علاوہ نظم کے مرکزی موضوعات میں شیطان کی خداتعالیٰ کی حاکمیت سے بغاوت' شیطان کا آسمان سے اخراج اور زمین پر بھیجنا انسانوں کو گمراہ کرنے کے لیے' دوزخ کی تخلیق' انسانی کائنات کی تخلیق' حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول کرنا اور انبیاء کرام کا انسانوں کی رشدوہدایت' نجات اور شیطان سے بچنے کے لیے زمین کی طرف نزول شامل ہے۔
قارئین کرام! Paradise Lost کے تمام موضوعات بلارنگ و نسل ہر دور اور تمام انسانوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ ملٹن کے عقیدہ کے مطابق خداتعالیٰ کی ذات پر اٹل یقین اور اس کے Saviour یعنی نجاتِ دہندہ کی پیروی سے ہی موت اور گناہ سے چھٹکارا ممکن ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ پر یقین اور اس کے Messengers یعنی پیغمبروں کی اطاعت ہی میں انسانوں کی نجات اور فلاح ممکن ہے۔
