سیاستدانوں کوکب عقل آئے گی؟
پاکستان تاریخ کے عجب موڑپر کھڑا ہے 'جہاں اسے چہارسودشمنوں کاسامنا ہے' اس سے بڑھ کر اور کیا بدقسمتی ہوگی کہ اس کے ساتھ کندھے سے کندھاملاکر کھڑاہونیوالا بھی نہیں ہے۔ پہلے پہل جب یہ بات کہی جاتی تھی کہ پاکستان دنیابھرمیں تنہا ہے تو یقین نہیں آتا تھاکہ دنیا ئے اسلام کی پہلی اورفی الوقت واحد ایٹمی قوت' 156اسلامی ممالک میں اپنی اہمیت کے اعتبار سے انفرادیت کاحامل ملک' ایشیائی ممالک کی مرکزی فہرست کا اہم نام ........لیکن زمینی حقائق کو ایک نظر سے دیکھاجائے نہ تو 156اسلامی ممالک اس کے کندھے سے کندھاملانے کو تیارہیں اورنہ ہی کوئی دوسراملک یہ کام کرنے کو تیار ہے ۔لے دے کے وہی چین ہی دکھائی دیتاہے لیکن حالیہ چندبرسوں میں چین نے بھی اپنی ترجیحات بدلناشروع کردی ہیں اب وہ پاکستان کی حمایت توکرتاہے 'اس کے ساتھ ہرقسمی تعلقات بھی رکھتاہے لیکن وہ بھارت کی بڑھتی ہوئی معاشی ضروریات کو نظرانداز نہیں کرپایا تبھی تو بھارت کے حوالے سے اس کے روئیے کی سرد مہری مسلسل پگھلتی چلی جارہی ہے۔ اب اگر یہ جائزہ لیاجائے کہ اس تشویشناک صورتحال میں پاکستان کے حکمرانوں نے اپنے روئیے میں کس حد تک تبدیلی پیدا کی ہے 'عوام کس حد تک خود کو تبدیل کرپائے ہیںکیونکہ سیانے کہتے ہیں کہ جب کوئی بندہ ہرطرف سے دشمنوں میں گھراہوا ہو تو اسے چاہئے کہ وہ پہلے گھروالوںکو اعتماد میں لے' انکی مشاورت سے لائحہ عمل تیارکر پھر محلہ داروں میں سے ذہنی ہم آہنگی رکھنے والوں کو ساتھ ملائے ۔ یہ سلسلہ پھر دراز تر ہوتا چلاجائیگا اس طرح وہ باآسانی دشمن کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوسکے گا لیکن یہاں تو عجب صورتحال ہے ہرنئے سورج کے ساتھ پاکستان کے دشمنوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہی ہورہاہے ہوسکتاہے کہ اس کے کئی دیگر بنیادی عوامل ہوں لیکن سب سے اہم نقطہ یہ بھی رہا ہے کہ ہم خود انحصاری کو سرے سے اپنایاہی نہیں قیام پاکستان سے لیکر آج تک ہماری پالیسیاں اور ہماری ترجیحات غیروں کی محتاج رہی ہیں جس کاخمیازہ آج بھی قوم بھگت رہی ہے۔
ہم نے عرض کیا کہ جب بندہ دشمنوں میں گھراہوا تو وہ اپنی لئے از سر نوپالیسی 'لائحہ عمل مرتب کرتاہے لیکن اگریہ دیکھا جائے کہ پاکستان کے حکمرانوں ' سیاستدانوں نے خود کو کس حد تک سدھارا ہے'ہم ماضی کے صفحا ت نہیں کھولیںگے اور نہ ہی آج کے تیز رفتار دور میں کسی کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ ماضی میں جھانکتاپھرے' گذشتہ روز کے قومی اخبارات میں ایک خبرچٹخارے لے کر پڑھی گئی ' تبصرے ہوئے لیکن بذات خود یہ خبر افسوسناک بھی ہے اور ماضی کے ان دریچوں کی طرف دیکھنے پرمجبورکرتی ہے جو 1988 سے 1999تک محیط ہے ' خبر ہے کہ گورنر پنجاب آئی جی سمیت سیکرٹریز کی طرف احکامات بجانہ لانے پر مایوس ہیں۔ انہوں نے آئی جی' سیکرٹری آبپاشی'سی اینڈ ڈبلیو' ہوم ڈیپارٹمنٹ سمیت کئی سیکرٹریز کو طلب کیاہوا تھا لیکن کسی نے بھی آنے کی زحمت نہیں کی اسی طرح چیف سیکرٹری کی بابت پتہ چلا کہ وہ رائے ونڈ گئے ہوئے ہیں۔ جس پر گورنر یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ''مجھے نہیں پتہ تھا کہ آج بھی رائے ونڈ میں کوئی وزیراعظم بستاہے'' ۔ یہ تصویرکاایک رخ ہے کراچی کی جانب چلئے 'عروس البلاد کہلوانے والا یہ شہر آج خون خون ہے' ہرسو نظردوڑانے کے بعد یہی دکھائی دیتاہے کہ ''کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے'' ہم ہیں کہ مجرم تلاش کرنے کی بجائے الٹا مجرموں کاتحفظ کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔ خبر یہ بھی ہے کہ پی پی کے اہم عہدیداراورصوبائی وزیر کے گرداگرد ایسے لوگ موجود ہیں جن کے سروں کی قیمت لاکھوں روپے لگائی جاچکی ہے۔ لیکن اس کے باوجود حکومتی ایوانوں سے ہی چیخ وپکار ہورہی ہے کہ دہشتگردوں کو جلد ہی کنٹرول کرلیںگے ۔ یہ عمل کس طرح وقوع پذیرہوگا کہ دہشتگرد خود حکومتی ایوانوں اور وزرا کی کوٹھیوں میں پل رہے ہیں۔
ہم حیران تو اس فعل پر ہیں کہ بیرونی دنیا میں دشمنوںکے درمیان گھرے اس ملک کے ایک صوبے میں اس حد تک نفرت کو فروغ دے دیاگیا کہ اب وہاں دیگرصوبوں خاص طورپر پنجاب سے تعلق رکھنے والوں کا قدم رکھنا بھی محال ہے۔ ہماری مراد صوبہ بلوچستان سے ہے ' ہم یہ کہہ کر اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ بر اہوجاتے ہیں کہ ''بلوچستان کے حالات خراب کرنے میں بھارت کا ہاتھ ہے '' لیکن یہ کیوں نہیں دیکھاجاتا ہے کہ ہمارے روئیے' کردار بھی اس نفرت کو ہواد ے رہے ہیں۔ مسلسل کئی عشروں سے آہستہ آہستہ پروان چڑھتی نفرت کا کسی نے اندازہ لگانے کی کوشش نہیں کی نتیجتاً آج بلوچستان اس نہج پر موجود ہے (خاکم بدہن) کسی بھی وقت دوسرا سانحہ مشرقی پاکستان رونماہوسکتا ہے ۔
ہم نے بیرونی خطرات 'دشمنوں کی بات کی ہے تو عرض کردیں کہ نہ تو ہمارے سیاستدانوں نے اس صورتحال میں کوئی پلاننگ کی ہے اور نہ ہی کوئی ایسا لائحہ عمل اختیارکرنے کی کوشش کی کہ جس کی بدولت عوام کو اعتماد میں لیکر آگے بڑھاجاسکے الٹاعوام کی مشکلات میں اضافہ ہی کیاگیا ہے۔ ان کو میسر سہولیات چھینی جارہی ہیں۔ گویا پاکستان کی اندرونی حالت کو دیکھ کر بھی یہی کہاجاسکتاہے کہ اس کی کوئی بھی کل سیدھی نہیں معاشی' انتظامی اور سیاسی حوالوں سے بھی جائزہ لیاجائے تو کسی بھی شعبے میں کوئی ایسی چنگاری دکھائی نہیںدیتی جو بڑھ کر شعلہ بن سکے۔ آج قوم کو ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جوچاروں صوبوں بشمول آزاد کشمیرکو یکجاکرسکے 'ہم جیسے تقسیم شدہ لوگوں کو انفرادیت کے چنگل سے نکال کر اجتماعیت کا شعور دے سکے۔ یہ کام پیپلزپارٹی بخوبی انجام دے سکتی تھی لیکن موجودہ دور اقتد ار میں مرکزیت کی حامل یہ جماعت بھی انفرادیت کا شکار ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
