امریکہ کی ہٹ دھرمی برقرار محمدثقلین رضا
نجانے کیوں ہمیں امریکہ پر اس شرارتی نوجوان کا سا گمان ہونے لگا ہے جو والدین ‘عزیز واقارب کے سمجھانے کے باوجود باز نہیںآتا‘ ہرسو اس کے ذہن پر’’شرارت ہی شرارت‘‘ چھائی رہتی ہے اور حادثات وواقعات بھی اسے تبدیل نہیں کرپاتے ‘ بس وہ اپنی شرارتوں میں گم ہے اورنقصانات درنقصانات کرتا چلاجارہاہے۔ ایسا ہی کچھ ان دنو ں امریکی روئیے سے صاف ظاہر ہے‘ اول یہ کہ نیٹو حملہ کے حوالے سے امریکہ قیادت نے واضح الفاظ میں معذرت سے انکارکردیا ہے‘ دوئم یہ کہ نیٹوحملے جیسی کارروائیاں امریکی پلان کاحصہ تھیں اوراسے پاکستان کے شدید ردعمل کابھی احسا س تھا تبھی توانہوں نے شمسی ائربیس کے متبادل ائر بیس کی تیاریاں کئی ماہ سے جاری رکھی ہوئی تھیں۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ امریکی جاسوس طیارے ڈرون حملوں کیلئے یہاں سے ہی پرواز کیاکرتے تھے اب جبکہ پاکستان کی طرف سے 11دسمبر کی ڈیڈ لائن مقرر کی گئی ہے تو امریکہ کایہ ائربیس چھوڑنا بذات خود اس بات کی دلالت کرتاہے کہ وہ پہلے ہی پاکستانی عوام اورحکومت کے ردعمل سے آگاہ تھا ۔ اب یہ سوال پیداہوتاہے کہ نیٹو حملے جیسی کاروائی سے پہلے کیا اس کے ذہن میں یہ بات بھی تھی کہ ڈرون حملوں کی طرح پاکستانی عوام‘ سیاستدانوں اور حکومت کی طرف سے ملاجلا ردعمل ہوگا ؟نیز یہ کہ اسے اتنے شدید عوامی اورسیاسی ردعمل کی توقع تھی۔ یہاں یہ سوال بھی ذہنوں میں جنم لیتاہے کہ کیا پاکستانی قیادت ڈرون حملوں کی طرح نیٹوکاروائی سے قبل ازوقت آگاہ تھی اگر جواب نفی میں ہے توپھر سوچنا پڑیگا کہ امریکہ جب کسی کاروائی میں پاکستانی حکومت کو اعتماد میں لئے بغیر اس کی سرزمین پرچڑھ دوڑتاہے تو پھر کیا اسے ’’دوستی ‘‘ کانام دیاجاسکتاہے۔ یہاں یہ نقطہ بھی نہایت توجہ کاطالب ہے کہ ماضی قریب میں افغان صدر سمیت امریکی سینٹرز ‘ اہم عہدیداران یہی راگ الاپتے رہے کہ پاکستان کی سرزمین افغانستان میں حملوں کیلئے استعمال کی جارہی ہے‘ اگر اس وقت حکومت پاکستان اس راگ یا راگنی کی حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کرتے یا افغان صدر ‘امریکی اعلیٰ عہدیداران سے ثبوت مانگے جاتے تو یقینا آج یہ کاروائی نہ ہوپاتی ۔ ممبئی حملوں کے بعد بھارت کے مسلسل شو روغوغا کی بدولت جب پوری دنیا کا میڈیا پاکستان کو اس دہشتگردانہ کاروائیوں میں ملوث کرنے لگا تو پاکستان نے اس کاروائی کی بابت ثبوت مانگے ‘ بھارتی رویہ بھی لیت ولعل پر مبنی تھا ‘ مہینوں انہیں ثبوتوں کے اکٹھاکرنے میں صرف کرنے کے بعد اورپاکستانی رویہ میں مسلسل شدت کی بدولت دنیا پر بھی واضح ہوگیا کہ اول تو پاکستان کااس میں کوئی کردار نہیں دوئم اگرکوئی پاکستانی اس کاروائی میں ملوث بھی تھا تو وہ اس کی انفرادی کاروائی تھی اس میں حکومت پاکستان‘ فوجی ادارے یا کسی گروہ کی دلچسپی ثابت نہیں ہوسکی۔
پاکستانی اخبارات تو الگ اب امریکی میڈیا بھی نیٹوحملہ کے حوالے سے تبصرے جاری ہیں ‘ ایک سابق امریکی جرنیل بیری مکے فرمی نے اپنی حکومت اور فوجی قیادت کو مشور ہ دیا ہے کہ وہ پاکستان سے معافی مانگ لیںبصور ت دیگر امریکہ افغانستان میں پھنس کررہ جائیگا کیونکہ افغان میں طلب ورسد کاسامان پاکستان کے راستوں سے ہی گزر کر افغانستان پہنچتاہے‘اگر پاکستان نے یہ راستے بند کردئیے تو ڈیڑھ لاکھ فوجیوں کاگزربسر مشکل ترہوجائیگا۔ ایک اورجرنیل کا کہنا ہے کہ فی الوقت پاکستانی حکومت نے امریکی ڈرون طیاروں کیلئے فضائی پابندیاں عائد تو نہیں کیں تاہم اگر وہ ایسا کرتی ہے تو پھر امریکہ کیلئے ایک اورمشکل کھڑی ہوسکتی ہے۔تاہم امریکہ کے اعلیٰ عہدیداران کے بیانا ت واضح کرتے ہیں کہ نیٹوحملہ نہ صرف دانستہ کاروائی تھی بلکہ مستقبل قریب میں وہ مزید ایسی کاروائیوں کے عزائم رکھتا ہے‘ دوسری بات یہ کہ وہ ڈرون حملوں کاسلسلہ بھی جاری رکھے گا چاہے اس کیلئے اسے جنگ ہی کیوں نہ لڑناپڑے۔ فی الوقت پاکستانی قیادت کا زور نیٹوحملے پر ہی ہے اور انہوں نے ڈرون حملوں کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی بیان جاری نہیں کیا وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کہتے ہیں کہ گیارہ دسمبرکے بعد شمسی ائر بیس سے ڈرون اڑنے نہیں دینگے تاہم وہ وضاحت نہیں کرسکے کہ امریکہ کوپاکستانی‘افغان حدود سے ڈرون حملوں کی اجازت دی جائے گی یانہیں؟
امریکی محکمہ دفاع کا کہناہے کہ نیٹوحملے کی تحقیقات جاری ہیں اور اس میں پاکستان اورافغان نمائندوں کو بھی دعوت دی گئی ہے تاہم ان ممالک کو خفیہ حصوں تک رسائی نہیں دی جائیگی۔امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق’’ پاکستان میں نیٹوحملہ کے بعد جوابی فوجی کاروائی کامطالبہ زور پکڑرہاہے‘ پاکستانی رہنما ہمیشہ کی طر ح خطرناک کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔اخبار کے مطابق یہ واضح نہیں کہ نیٹو کے پاکستانی سرحدی پوسٹوں پر حملے کی کیا وجہ تھی لیکن اس سے بھی اختلاف نہیں کہ جانوں کا ضیا ع المیہ ہے اس حملے میں پاکستان کے چوبیس فوجی جوان شہید ہوئئے ہمیں ان کی موت پر افسوس ہوا جیسا کہ ہمیں نیٹو‘ امریکی‘ افغان ‘پاکستانی اوردیگر شہریوں کی ہلاکت پرہوتاہے۔اخبار کے مطابق افغانستان میں جاری آپریشن کی کامیابی کیلئے پاکستان کاتعاون بیحد ضروری ہے تاہم امریکی صدر اوباما کارویہ یہ ثابت نہیں کرتاہے کہ وہ پاکستان دوستی کے حوالے سے سنجیدہ ہیں‘‘
نیویارک ٹائمز کے طویل ترین تبصرے کے آخر میں پاکستانی قیادت کو بھی تبصروں سے گریز کامشورہ دیا گیاہے تاکہ مسلسل کشیدہ ہوتے امریکی تعلقات میں کھنچائو کم کیاجاسکے۔ نیز یہ مشورہ بھی دیاگیا ہے کہ پاکستانی رہنماا س حملے کے حوالے سے جاری تحقیقات میں امریکی حکام سے تعاون کریں تاکہ آئندہ اس قسم کی کاروائی نہ ہو۔ تاہم اخبار یہ واضح نہیں کرسکا کہ امریکی قیادت کی طر ف سے آئندہ ایسا حملہ نہ کرنے کی بھی کوئی یقین دہانی کرائی گئی ہے یا نہیں۔
جیسا کہ ہم نے شروع میں عرض کیاتھا کہ امریکہ کا رویہ شرارتی نوجوان کا سا ہے اور وہ نفع نقصان کااندازہ کئے بغیر ہٹ دھرم روئیے پر قائم ہے‘ اسے احساس ہے کہ وہ دنیا کی سپرپاور ہے تبھی وہ ’’سوری‘‘ جیسے لفظ کی ادائیگی اپنے لئے توہین تصورکررہاہے ۔ سیانے کہتے ہیں کہ جو شاخ جھکنا نہیں جانتی وہ ٹوٹ جایاکرتی ہے۔ یہ الگ بات کہ اب امریکہ کی کمر کے مہرے ہل چلے ہیں اور دیکھنا یہ ہے کہ یہ جھکی کمر کب سجدہ ریز ہوتی ہے۔
پاکستانی اخبارات تو الگ اب امریکی میڈیا بھی نیٹوحملہ کے حوالے سے تبصرے جاری ہیں ‘ ایک سابق امریکی جرنیل بیری مکے فرمی نے اپنی حکومت اور فوجی قیادت کو مشور ہ دیا ہے کہ وہ پاکستان سے معافی مانگ لیںبصور ت دیگر امریکہ افغانستان میں پھنس کررہ جائیگا کیونکہ افغان میں طلب ورسد کاسامان پاکستان کے راستوں سے ہی گزر کر افغانستان پہنچتاہے‘اگر پاکستان نے یہ راستے بند کردئیے تو ڈیڑھ لاکھ فوجیوں کاگزربسر مشکل ترہوجائیگا۔ ایک اورجرنیل کا کہنا ہے کہ فی الوقت پاکستانی حکومت نے امریکی ڈرون طیاروں کیلئے فضائی پابندیاں عائد تو نہیں کیں تاہم اگر وہ ایسا کرتی ہے تو پھر امریکہ کیلئے ایک اورمشکل کھڑی ہوسکتی ہے۔تاہم امریکہ کے اعلیٰ عہدیداران کے بیانا ت واضح کرتے ہیں کہ نیٹوحملہ نہ صرف دانستہ کاروائی تھی بلکہ مستقبل قریب میں وہ مزید ایسی کاروائیوں کے عزائم رکھتا ہے‘ دوسری بات یہ کہ وہ ڈرون حملوں کاسلسلہ بھی جاری رکھے گا چاہے اس کیلئے اسے جنگ ہی کیوں نہ لڑناپڑے۔ فی الوقت پاکستانی قیادت کا زور نیٹوحملے پر ہی ہے اور انہوں نے ڈرون حملوں کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی بیان جاری نہیں کیا وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کہتے ہیں کہ گیارہ دسمبرکے بعد شمسی ائر بیس سے ڈرون اڑنے نہیں دینگے تاہم وہ وضاحت نہیں کرسکے کہ امریکہ کوپاکستانی‘افغان حدود سے ڈرون حملوں کی اجازت دی جائے گی یانہیں؟
امریکی محکمہ دفاع کا کہناہے کہ نیٹوحملے کی تحقیقات جاری ہیں اور اس میں پاکستان اورافغان نمائندوں کو بھی دعوت دی گئی ہے تاہم ان ممالک کو خفیہ حصوں تک رسائی نہیں دی جائیگی۔امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق’’ پاکستان میں نیٹوحملہ کے بعد جوابی فوجی کاروائی کامطالبہ زور پکڑرہاہے‘ پاکستانی رہنما ہمیشہ کی طر ح خطرناک کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔اخبار کے مطابق یہ واضح نہیں کہ نیٹو کے پاکستانی سرحدی پوسٹوں پر حملے کی کیا وجہ تھی لیکن اس سے بھی اختلاف نہیں کہ جانوں کا ضیا ع المیہ ہے اس حملے میں پاکستان کے چوبیس فوجی جوان شہید ہوئئے ہمیں ان کی موت پر افسوس ہوا جیسا کہ ہمیں نیٹو‘ امریکی‘ افغان ‘پاکستانی اوردیگر شہریوں کی ہلاکت پرہوتاہے۔اخبار کے مطابق افغانستان میں جاری آپریشن کی کامیابی کیلئے پاکستان کاتعاون بیحد ضروری ہے تاہم امریکی صدر اوباما کارویہ یہ ثابت نہیں کرتاہے کہ وہ پاکستان دوستی کے حوالے سے سنجیدہ ہیں‘‘
نیویارک ٹائمز کے طویل ترین تبصرے کے آخر میں پاکستانی قیادت کو بھی تبصروں سے گریز کامشورہ دیا گیاہے تاکہ مسلسل کشیدہ ہوتے امریکی تعلقات میں کھنچائو کم کیاجاسکے۔ نیز یہ مشورہ بھی دیاگیا ہے کہ پاکستانی رہنماا س حملے کے حوالے سے جاری تحقیقات میں امریکی حکام سے تعاون کریں تاکہ آئندہ اس قسم کی کاروائی نہ ہو۔ تاہم اخبار یہ واضح نہیں کرسکا کہ امریکی قیادت کی طر ف سے آئندہ ایسا حملہ نہ کرنے کی بھی کوئی یقین دہانی کرائی گئی ہے یا نہیں۔
جیسا کہ ہم نے شروع میں عرض کیاتھا کہ امریکہ کا رویہ شرارتی نوجوان کا سا ہے اور وہ نفع نقصان کااندازہ کئے بغیر ہٹ دھرم روئیے پر قائم ہے‘ اسے احساس ہے کہ وہ دنیا کی سپرپاور ہے تبھی وہ ’’سوری‘‘ جیسے لفظ کی ادائیگی اپنے لئے توہین تصورکررہاہے ۔ سیانے کہتے ہیں کہ جو شاخ جھکنا نہیں جانتی وہ ٹوٹ جایاکرتی ہے۔ یہ الگ بات کہ اب امریکہ کی کمر کے مہرے ہل چلے ہیں اور دیکھنا یہ ہے کہ یہ جھکی کمر کب سجدہ ریز ہوتی ہے۔
