جہد مسلسل کی عظم الشان مثال
20جولائی 2005 کو جب پندرہ روز ہ 'بھکرٹائمز '' نے روزنامے کا اعزازحاصل کیا تو سانول گروپ آف نیوز پیپرز کی ٹیم نے اپنے قائدین محترم محمد حفیظ اللہ شاہ 'محترم محمدذوالقرنین سکندر کی خداد اد صلاحیتوں کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے روزنامے کے اجراکوا یک چیلنج سمجھ کر قبول کیا ۔کیونکہ ایک طویل عرصے سے ایک ایسے روزنامے کی کمی بڑی شدت کے ساتھ محسوس کی جارہی تھی کہ جو پورے علاقے کی نمائندگی اپنے پورے وقار اور اعتماد کے ساتھ کرسکتا ہو۔ ا س عزم کا اظہار بذات خود ایک بہت بڑا چیلنج تھاپھر اس کو عملی شکل دینا تو اس سے کہیں بڑھ کر مشکل کام تھا۔ مگر جن افراد کے ارادے پختہ ہوتے ہیں اوروہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں پر مکمل یقین رکھتے ہیں ایسے لوگ تلاطم خیز موجوں سے کبھی نہیں گھبراتے اوربالآخر سرخروئی کی منزل کو پالیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب پندرہ روزہ بھکرٹائمز کو روزنامے کی شکل میں شائع کرنے کا پروگرام بن رہاتھا تو طرح طرح کے خدشات اور تحفظات بھی ساتھ ساتھ چل رہے تھے گو کہ ارادے باندھتاہوں' سوچتاہوں' توڑدیتاہوں'' والی کیفیت تو ہرگزہرگز نہ تھی مگر کہیں ایسا نہ ہوجائے 'کہیں ویسا نہ ہوجائے '' والی صورتحال بہرنوع درپیش تھی۔ سانول گروپ آف نیو زپیپرز کا جومقام قارئین کے دلوں میں ہے اور پھر قارئین بجاطورپر اس ادارے سے شائع ہونیوالے اخبارات و رسائل سے جو توقعات رکھتے ہیں ان پر پورا اترنا لمحہ لمحہ پسینہ بہانے کاتقاضا کرتاہے۔ یہ اصول فطرت ہے کہ پسینہ بہانے سے پہلے صلہ نہیں ملتا اورجب صلہ ملتاہے تو چاردانگ عالم میں اسکا چرچا ہوتاہے
الحمد للہ بھکرٹائمز نے اپنے پہلے چار سالوں میںاپنے تشخص کو اور زیادہ مستحکم کیا ہے اورمعیار ووقار ہے کہ دن دوگنی رات چوگنی ترقی کررہا ہے ۔ ضلع بھکر کی پسماندگی کوئی ڈھکا چھپا امر نہیں ہے مسائل ومصائب بہت زیادہ ہیںہرسو محرومیوں کے پہاڑ کھڑے نظرآتے ہیں عوام میں خاصی حد تک ڈپریشن پائی جاتی ہے ملکی حالات وواقعات کا براہ راست ضلع بھکر پر پڑرہاہے بالخصوص سوات آپریشن اورفاٹا کے علاقے میں فوجی کارروائیاں بھکر کو بھی اور زیادہ حساس بناگئی ہیں۔ دہشتگردی کے خلاف اس آپریشن کے نتیجے میں ڈیرہ اسماعیل خان کا سکون برباد ہوچکا ہے ڈیرہ جو کسی زمانے پھولوں کا سہرا مشہور تھا اب وحشتوں کا بسیرا بن گیا ہے۔ بھکر اور ڈیرہ اسماعیل خان کے درمیان صرف دریائے سندھ پڑتاہے فاٹا کا بھکر سے فضائی فاصلہ بھی چند منٹوں کا ہے دریں حالات بھکرسے شائع ہونیوالے اخبارات پر ایک آزمائش آن پڑی ہے اس میں سرخرو ہونے کے لئے جان ہتھیلی پر رکھنا ضروری ہوگیا ہے ۔ ان مشکل ترین حالات میں رپورٹنگ کرنا اورقارئین تک بروقت حقائق پہنچانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔ مگر آفرین ہے کہ سانول گروپ آف نیوز پیپرزکو اس بھاری پتھر کو دیر تک اورآخر تک اٹھائے رکھنے کا اعلان کردیا۔ اس ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے محمدحفیظ اللہ شاہ نے اپنی ٹیم کے ہررکن کو ہرموقع پر یہی تلقین وتاکید کی ہے کہ اسلام' پاکستان اور عوام کے حوالے سے کسی طورکوئی سمجھوتہ نہ کیاجائے چاہے اس فرض کو اداکرتے ہوئے کتنے ہی کڑے مراحل سے کیوں نہ گزرنا پڑے۔ ہمت 'جرات ' دلیری' جفاکشی اورپامردی کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ اپنے پاک حبیبۖ کے صدقے ضرور کرم فرماتا ہے۔ چیف ایگزیکٹو کے یہی جذبات ادارے کی پوری ٹیم کے اندرجوش وولولے کی ایک نئی لہر پیداکردیتے ہیں اورپھر کوئی بھی ادارے کا رکن اپنے فرائض کی ادائیگی کیلئے پیچھے مڑکر نہیں دیکھتا یہی وجہ ہے کہ آج بھکرٹائمز ضلع بھکر میں سب سے زیادہ پڑھاجانیوالا اخبار بن چکا ہے ۔قارئین اپنے ناشتے کی میز پر روزنامہ بھکرٹائمز کی موجودگی کو لازمی خیال کرتے ہیں اس پس منظر میں ادارے کی بھی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اخبار بروقت شائع ہوکر تازہ ترین خبروں کے ساتھ ضلع کے طول وعرض میں پہنچے۔ مقام شکر ہے کہ اس کوشش میں بہت بڑی کامیابی نصیب ہوئی ہے۔ بھکرٹائمز ضلع کا پہلا روزنامہ ہے اوراب تک کا واحد روزنامہ ہے کہ جو اے بی سی ہے اور کسی بھی اخبار کا اے بی سی ہونا اس کے کامیاب ہونے کی بین دلیل ہوتی ہے۔ جب سے اخبار کی اے بی سی ہوئی ہے اس کے نکھار میں بیحد اضافہ ہوا ہے۔ سرکولیشن پہلے سے کہیں زیادہ ہوگئی ہے اب تو اللہ کے فضل وکرم سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی روزنامہ بھکرٹائمز کی ترسیل شرو ع ہوگئی ہے اور اسلام آباد کے بیوروچیف حافظ محمد اقبال کے توسط سے سرکاری اشتہارات بھی ملنا شروع ہوگئے ہیں۔قومی اخبارات کی سنٹرل میڈیا لسٹ میں بھی بھکرٹائمز کانام شامل ہوچکاہے ۔بھکرجیسے پسماندہ ترین علاقے سے شائع ہونیوالے کسی روزنامے کا سنٹرل میڈیالسٹ میںشامل ہوناواقعتا بہت بڑی کامیابی ہے جس کا اکثر واوقات تصورکرنا بھی محال ہوتاہے مگر یہ سب کچھ کامل یقین کی بدولت سانول گروپ کو نصیب ہوا ہے ۔رات دن کی محنت یوں رنگ لائی ہے کہ لمحہ موجود میں بھکرٹائمز ضلع کا مقبول ترین روزنامہ بن چکا ہے جیسا کہ میں نے رقم کیا ہے کہ یہ سب کچھ عمدہ ٹیم ورک کا نتیجہ ہے۔ ادارے کے چیف ایگزیکٹو محمدحفیظ اللہ شاہ جس سچائی رعنائی اور دانائی کے ساتھ تمام تر صحافتی معاملات کو آگے لے کر بڑھ رہے ہیں اس کے ثمرات اب تیزی کے ساتھ سامنے آنے لگے ہیں۔ محترم محمدذوالقرنین سکندر کی سوچ اور شاہ صاحب کی سوچ میں رتی بھر کا فرق نہیں ہے۔ جہاں تک اخبار کی کامیابی کیلئے نت نئے آئیڈیازکاتعلق ہے تو اس ضمن میں محمد ثقلین رضاکا کوئی ثانی نہیں ہے 'مسائل کی نشاندہی اورپھر ان کے حل کیلئے براہ راست عوام سے رابطہ کاسلسلہ ثقلین رضا نے ہی شروع کیا ہے ۔ ''سانول رائٹرز فورم '' کا قیام بھی ان کی محنتوں کانتیجہ ہے۔ اللہ کا خصوصی کرم ہے کہ اس فورم سے ایسے پروگرام پیش کئے جارہے ہیں کہ جس کی نظیر پہلے نہیں ملتی۔ ہراتوار کو مختلف شعبہ جات کی نمایاں ترین شخصیات کو ا س فورم میں مدعو کیاجاتاہے وقت کی پابندی اس فورم کی نمایاں خصوصیت ہے ٹھیک صبح ساڑھے دس بجے پروگرام شروع ہوجاتا ہے ۔اس فورم میں بھکرٹائمز کے جتنے بھی کالم نگار ہیں وہ خصوصی طورپرشرکت کرتے ہیں مہمانوں کے خیالات اورکالم نگار وں کے سوالات تقریب میں جان ڈال دیتے ہیں۔ اس امر کے بیان کرنے میں کسی قسم کا تامل نہیں ہے کہ روزنامہ بھکرٹائمز میں اچھے لکھنے والے موجود ہیں ۔روزنامہ بھکرٹائمز کا سب سے پہلا کالم نگار ہونے کا اعزاز ناچیز کو حاصل ہے۔ جب روزنامہ کی اشاعت کی تیاریاں زور وشور سے جاری تھیں اس موقع پر برادرم محمدذوالقرنین سکندرنے مجھے کہا کہ ہم جلدہی روزنامہ نکال رہے ہیں ہماری خواہش ہے کہ اس میں آپ مستقل کالم نگار کی حیثیت سے شریک ہوں میںنے ذوالقرنین بھائی کی خواہش کے سامنے سر جھکادیا اورپھر 20جولائی 2005کے پہلے شمارے میں میرا کالم بعنوان'' پیر تونسے دا 'تے امب چونسے دا'' شائع ہوا۔ الحمد للہ اس کالم کو اب تک متعد دقارئین اپنی محبتوں کا ثبوت دیتے ہوئے حوالے کے طورپر یاد کرتے ہیں۔ ابتدا میں کالم نگاروں کی تعداد کم تھی مگر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا لکھنے والے بھی بڑھتے چلے گئے ۔ اب یہ صور ت ہے کہ کالم نگاروں کی بھیڑ سی لگ گئی ہے اوراکثرواوقات ایڈیٹوریل بورڈ کے انچارج محمدثقلین رضاکو کالموں کے انتخاب میں دقت پیش آتی ہے کہ اشاعت کے لئے جگہ بہت کم ہوتی ہے جبکہ کالموں کی تعداد بے شمار ہوتی ہے۔ اس آزمائش سے ثقلین رضا کو روزانہ ہی گزرنا پڑتاہے یہ ان ہی کا حوصلہ ہے کہ وہ مسلسل اس کام کابیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں۔ اخبار میں ہمیشہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی ہے بعض نو آموز لکھنے والوں کی تحریریں توادارہ خود نوک پلک درست کرکے شائع کرتا ہے کہ لکھنے والا کادل نہ ٹوٹے اوراس میں لکھنے کا مزید حوصلہ پیداہو۔ مجھے یاد نہیں ہے کہ کوئی تحریر بھکرٹائمز کے دفتر میں پہنچی ہو اور شائع ہونے سے رہ گئی ہے۔ دیر سویر ہوجاتی ہے مگر شائع نہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیںہوتا۔ ایسا کرنا ان حالات میں بہت مشکل ہوجاتا ہے کہ جب ایک سے بڑھ کر ایک اچھا لکھنے والا اخبار میںباقاعدگی سے لکھ رہاہو۔ کالم نگاری کے حوالے سے محمدثقلین رضا اکثر کالم نگاروں کے استادہونے کے مرتبے پر فائز ہیں ۔ حا ل احوال کے عنوان سے اب تک ہزاروں کالم لکھنے والے محمدثقلین رضابلاشبہ کالم نگاری کے میدان کے فاتح ہیں۔ ڈاکٹر زبیر اللہ شاہ نے اپنی خداد اد صلاحیتوں کی بنا پر صحافت کی دنیا میں بڑی شہرت حاصل کی ہے۔ نیوزایڈیٹر کے طورپر برادرم خرم شیرازی کے بارے میں کچھ سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ اپنے فرض کو کامل دیانت اور کمال محنت کے ساتھ اداکرنا ان پر ختم ہے۔ ایگزیکٹو ایڈیٹر کی حیثیت سے محترم ظفرحسین برنی کا وجود باعث برکت ہے۔ چوہدری یاسین عامر خوئے جستجوکی دولت سے مالا مال ہیں۔ کرائمز رپوٹر کے طورپر محسن رضاقریشی کے بارے میں 'میں اکثر کہاکرتاہوں کہ وہ آیا اورپھر چھاگیا ۔ اپنے صحافتی فرائض کی ادائیگی کیلئے ہمہ وقت مستعد رہنا کوئی ان سے سیکھے۔کمپوزنگ کے شعبے میں سبط الحسنین'مظہر عباس ' حسن رضاقریشی' معین عالم' فراز برنی'کی محنت اخبار کے نکھار کو دوچند کردیتی ہے۔ تنویراحمد بھٹی' واجد نواز ڈھول' شاہد محمود باروی' محبت کے استعارے ہیں۔ خالد شہزاد' محمدشہباز' شیخ ثنا اللہ' محمدنوید قادری' اخبار کے لئے رگوں میںدوڑنے والے خون کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ محمدابوبکر اورسیف اللہ کی موجودگی ادارے کے ہر رکن کیلئے آسودگی کا باعث بنتی ہے۔ معروف شاعر سید نجف علی شاہ بخاری کے قطعے باذو ق قارئین میں بہت مشہور ہیں۔ قطعہ نگار ی میں باقاعدگی قابل تحسین ہے
بھکرٹائمز سے وابستگی کی بناپر اکثر مجھ سے مختلف قسم کے سوالات کئے جاتے ہیں کہ مثلاً یہ کہ بھکرٹائمز میں صرف بھکرکی خبریں آنی چاہیں اس میں دیگر اضلاع یاصوبوں کی خبریں کیوں آتی ہیں جبکہ اخبار کانام بھکرٹائمز ہے۔میں نے سوال کرنے والے سے سوال کیا ہے کہ پاکستان ٹائمز میں کیا صرف پاکستان کی خبریں ہوتی ہیں کسی اورملک کی نہیں ہوتیں۔کیا نیویارک ٹائمز میں صرف نیویارک کی خبریں ہوتی ہیں۔ فرنیٹر پوسٹ میں صرف صوبہ سرحد کی خبریں شائع ہوتی ہیں۔ سائل میرے سوالات کو سن کر بولا نہیں ہرگزنہیں' پاکستان ٹائمز میں تو دیگرملکوں کی خبریں بھی ہوتی ہیں اورفرنیٹر پوسٹ میں دیگر صوبوں کی خبریں شائع ہوتی ہیں۔ میں نے جواباً کہا کہ اس تناظر میں بھکرٹائمز میں دیگر اضلاع کی خبریں شائع کرنے کی گنجائش بہرحال نکلتی ہے ۔میری بات سن کر سوال کرنیوالامطمئن ہوگیا۔ ایک دفعہ سوال کیاگیا کہ بھکرٹائمز میں سیاسی حوالے سے صرف نوانی گروپ کی اور مذہبی حوالے سے صرف اہل سنت کی خبریں شائع ہوتی ہیں میں نے سائل سے کہا کہ کوئی اخبار صرف ایک سیاسی دھڑے اورمذہبی حلقے کی کوریج کرکے ضلع کامقبول اخبار بن سکتاہے۔ سائل نے کہا بالکل نہیں ۔ میں نے کہا جب آپ بھکرٹائمز کو ضلع کامقبول ترین اخبار تسلیم کرتے ہیں تو دوسری طرف اس پر خاص سیاسی اور مذہبی حلقے کی چھاپ بھی لگاتے ہیں یہ دونوں متضاد چیزیں ہیں اللہ کے کرم سے بھکرٹائمز ہر طبقہ فکر میں یکساں مقبول ہے اورہرشعبہ ہائے زندگی کے افراد کی خبروں کو برابر شائع کرتاہے یہی وجہ ہے کہ اس کی اشاعت مسلسل بڑھتی جارہی ہے پھر میں نے اسی لمحے اعتراض کرنے والے شخص کے سامنے اسی دن کا بھکرٹائمز کھول کر رکھ دیا کہ آئو دیکھتے ہیں کہ آپ کے اعتراض میں کتنی صداقت ہے اس موقع پر معترض نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا اخبار میں مذہبی سیاسی حوالے سے کوئی جانبدار ی نہ تھی۔ میں نے اس شخص سے کہا کہ منفی پروپیگنڈے اورحقائق میں زمین وآسمان کافرق ہوتاہے۔ یہ سن کر وہ شخص قائل ہوگیا کہ بھکرٹائمز واقعی غیر جانبدار اخبار ہے۔
انسان خطا کا پتلا ہے بہتر ی کی گنجائش ہرجگہ پرموجودرہتی ہے میں یہ تو نہیں کہتا کہ بھکرٹائمز ہرحوالے سے اپنی معراج کو پہنچ گیا مگر اتنا ڈنکے کے چوٹ پر کہوں گا کہ سانول گروپ آف نیوز پیپرز کے زیراہتمام باقاعدگی سے شائع ہونیوالے روزنامہ بھکرٹائمز نے اپنے دم قد م سے ضلعی صحافت کے تن مردہ میں نئی پھونک دی ہے۔ بھکرسے متعدد روزناموں کی اشاعت کا کریڈٹ بھکرٹائمز کو جاتاہے کہ اس کی پیروی میں سالنامے 'سہ ماہی ' ماہانے اورپندرہ روزہ اخبارات اب روزنامے کی صورت میں سامنے آنے کی کوشش کرنے لگے ہیں۔ مسابقت کا جذبہ ایک مثبت جذبہ ہے اس کو پروان چڑھتے رہنا چاہئے مجھے ہمیشہ بھکرٹائمز کی خوب سے خوب تر اشاعت کے جذبے سے سرشار ادارے کے ہررکن کے ماتھے پر نت نئی منازل کو چھو لینے کا عزم جلی حروف میں لکھا دکھائی دیتا ہے۔ کسی بھی ادارے کے لئے یہ عمل نیک شگون ہوتاہے۔ میری دعا ہے کہ بھکرٹائمز جہد مسلسل کی ایسی ہی عظیم الشان مثالیں برابر قائم کرتا چلاجائے
جن کو طوفانوں سے ٹکرانے کی عادت ہوفراز
ان کی کشتی کو سمندر بھی دعا دیتے ہیں
الحمد للہ بھکرٹائمز نے اپنے پہلے چار سالوں میںاپنے تشخص کو اور زیادہ مستحکم کیا ہے اورمعیار ووقار ہے کہ دن دوگنی رات چوگنی ترقی کررہا ہے ۔ ضلع بھکر کی پسماندگی کوئی ڈھکا چھپا امر نہیں ہے مسائل ومصائب بہت زیادہ ہیںہرسو محرومیوں کے پہاڑ کھڑے نظرآتے ہیں عوام میں خاصی حد تک ڈپریشن پائی جاتی ہے ملکی حالات وواقعات کا براہ راست ضلع بھکر پر پڑرہاہے بالخصوص سوات آپریشن اورفاٹا کے علاقے میں فوجی کارروائیاں بھکر کو بھی اور زیادہ حساس بناگئی ہیں۔ دہشتگردی کے خلاف اس آپریشن کے نتیجے میں ڈیرہ اسماعیل خان کا سکون برباد ہوچکا ہے ڈیرہ جو کسی زمانے پھولوں کا سہرا مشہور تھا اب وحشتوں کا بسیرا بن گیا ہے۔ بھکر اور ڈیرہ اسماعیل خان کے درمیان صرف دریائے سندھ پڑتاہے فاٹا کا بھکر سے فضائی فاصلہ بھی چند منٹوں کا ہے دریں حالات بھکرسے شائع ہونیوالے اخبارات پر ایک آزمائش آن پڑی ہے اس میں سرخرو ہونے کے لئے جان ہتھیلی پر رکھنا ضروری ہوگیا ہے ۔ ان مشکل ترین حالات میں رپورٹنگ کرنا اورقارئین تک بروقت حقائق پہنچانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔ مگر آفرین ہے کہ سانول گروپ آف نیوز پیپرزکو اس بھاری پتھر کو دیر تک اورآخر تک اٹھائے رکھنے کا اعلان کردیا۔ اس ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے محمدحفیظ اللہ شاہ نے اپنی ٹیم کے ہررکن کو ہرموقع پر یہی تلقین وتاکید کی ہے کہ اسلام' پاکستان اور عوام کے حوالے سے کسی طورکوئی سمجھوتہ نہ کیاجائے چاہے اس فرض کو اداکرتے ہوئے کتنے ہی کڑے مراحل سے کیوں نہ گزرنا پڑے۔ ہمت 'جرات ' دلیری' جفاکشی اورپامردی کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ اپنے پاک حبیبۖ کے صدقے ضرور کرم فرماتا ہے۔ چیف ایگزیکٹو کے یہی جذبات ادارے کی پوری ٹیم کے اندرجوش وولولے کی ایک نئی لہر پیداکردیتے ہیں اورپھر کوئی بھی ادارے کا رکن اپنے فرائض کی ادائیگی کیلئے پیچھے مڑکر نہیں دیکھتا یہی وجہ ہے کہ آج بھکرٹائمز ضلع بھکر میں سب سے زیادہ پڑھاجانیوالا اخبار بن چکا ہے ۔قارئین اپنے ناشتے کی میز پر روزنامہ بھکرٹائمز کی موجودگی کو لازمی خیال کرتے ہیں اس پس منظر میں ادارے کی بھی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اخبار بروقت شائع ہوکر تازہ ترین خبروں کے ساتھ ضلع کے طول وعرض میں پہنچے۔ مقام شکر ہے کہ اس کوشش میں بہت بڑی کامیابی نصیب ہوئی ہے۔ بھکرٹائمز ضلع کا پہلا روزنامہ ہے اوراب تک کا واحد روزنامہ ہے کہ جو اے بی سی ہے اور کسی بھی اخبار کا اے بی سی ہونا اس کے کامیاب ہونے کی بین دلیل ہوتی ہے۔ جب سے اخبار کی اے بی سی ہوئی ہے اس کے نکھار میں بیحد اضافہ ہوا ہے۔ سرکولیشن پہلے سے کہیں زیادہ ہوگئی ہے اب تو اللہ کے فضل وکرم سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی روزنامہ بھکرٹائمز کی ترسیل شرو ع ہوگئی ہے اور اسلام آباد کے بیوروچیف حافظ محمد اقبال کے توسط سے سرکاری اشتہارات بھی ملنا شروع ہوگئے ہیں۔قومی اخبارات کی سنٹرل میڈیا لسٹ میں بھی بھکرٹائمز کانام شامل ہوچکاہے ۔بھکرجیسے پسماندہ ترین علاقے سے شائع ہونیوالے کسی روزنامے کا سنٹرل میڈیالسٹ میںشامل ہوناواقعتا بہت بڑی کامیابی ہے جس کا اکثر واوقات تصورکرنا بھی محال ہوتاہے مگر یہ سب کچھ کامل یقین کی بدولت سانول گروپ کو نصیب ہوا ہے ۔رات دن کی محنت یوں رنگ لائی ہے کہ لمحہ موجود میں بھکرٹائمز ضلع کا مقبول ترین روزنامہ بن چکا ہے جیسا کہ میں نے رقم کیا ہے کہ یہ سب کچھ عمدہ ٹیم ورک کا نتیجہ ہے۔ ادارے کے چیف ایگزیکٹو محمدحفیظ اللہ شاہ جس سچائی رعنائی اور دانائی کے ساتھ تمام تر صحافتی معاملات کو آگے لے کر بڑھ رہے ہیں اس کے ثمرات اب تیزی کے ساتھ سامنے آنے لگے ہیں۔ محترم محمدذوالقرنین سکندر کی سوچ اور شاہ صاحب کی سوچ میں رتی بھر کا فرق نہیں ہے۔ جہاں تک اخبار کی کامیابی کیلئے نت نئے آئیڈیازکاتعلق ہے تو اس ضمن میں محمد ثقلین رضاکا کوئی ثانی نہیں ہے 'مسائل کی نشاندہی اورپھر ان کے حل کیلئے براہ راست عوام سے رابطہ کاسلسلہ ثقلین رضا نے ہی شروع کیا ہے ۔ ''سانول رائٹرز فورم '' کا قیام بھی ان کی محنتوں کانتیجہ ہے۔ اللہ کا خصوصی کرم ہے کہ اس فورم سے ایسے پروگرام پیش کئے جارہے ہیں کہ جس کی نظیر پہلے نہیں ملتی۔ ہراتوار کو مختلف شعبہ جات کی نمایاں ترین شخصیات کو ا س فورم میں مدعو کیاجاتاہے وقت کی پابندی اس فورم کی نمایاں خصوصیت ہے ٹھیک صبح ساڑھے دس بجے پروگرام شروع ہوجاتا ہے ۔اس فورم میں بھکرٹائمز کے جتنے بھی کالم نگار ہیں وہ خصوصی طورپرشرکت کرتے ہیں مہمانوں کے خیالات اورکالم نگار وں کے سوالات تقریب میں جان ڈال دیتے ہیں۔ اس امر کے بیان کرنے میں کسی قسم کا تامل نہیں ہے کہ روزنامہ بھکرٹائمز میں اچھے لکھنے والے موجود ہیں ۔روزنامہ بھکرٹائمز کا سب سے پہلا کالم نگار ہونے کا اعزاز ناچیز کو حاصل ہے۔ جب روزنامہ کی اشاعت کی تیاریاں زور وشور سے جاری تھیں اس موقع پر برادرم محمدذوالقرنین سکندرنے مجھے کہا کہ ہم جلدہی روزنامہ نکال رہے ہیں ہماری خواہش ہے کہ اس میں آپ مستقل کالم نگار کی حیثیت سے شریک ہوں میںنے ذوالقرنین بھائی کی خواہش کے سامنے سر جھکادیا اورپھر 20جولائی 2005کے پہلے شمارے میں میرا کالم بعنوان'' پیر تونسے دا 'تے امب چونسے دا'' شائع ہوا۔ الحمد للہ اس کالم کو اب تک متعد دقارئین اپنی محبتوں کا ثبوت دیتے ہوئے حوالے کے طورپر یاد کرتے ہیں۔ ابتدا میں کالم نگاروں کی تعداد کم تھی مگر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا لکھنے والے بھی بڑھتے چلے گئے ۔ اب یہ صور ت ہے کہ کالم نگاروں کی بھیڑ سی لگ گئی ہے اوراکثرواوقات ایڈیٹوریل بورڈ کے انچارج محمدثقلین رضاکو کالموں کے انتخاب میں دقت پیش آتی ہے کہ اشاعت کے لئے جگہ بہت کم ہوتی ہے جبکہ کالموں کی تعداد بے شمار ہوتی ہے۔ اس آزمائش سے ثقلین رضا کو روزانہ ہی گزرنا پڑتاہے یہ ان ہی کا حوصلہ ہے کہ وہ مسلسل اس کام کابیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں۔ اخبار میں ہمیشہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی ہے بعض نو آموز لکھنے والوں کی تحریریں توادارہ خود نوک پلک درست کرکے شائع کرتا ہے کہ لکھنے والا کادل نہ ٹوٹے اوراس میں لکھنے کا مزید حوصلہ پیداہو۔ مجھے یاد نہیں ہے کہ کوئی تحریر بھکرٹائمز کے دفتر میں پہنچی ہو اور شائع ہونے سے رہ گئی ہے۔ دیر سویر ہوجاتی ہے مگر شائع نہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیںہوتا۔ ایسا کرنا ان حالات میں بہت مشکل ہوجاتا ہے کہ جب ایک سے بڑھ کر ایک اچھا لکھنے والا اخبار میںباقاعدگی سے لکھ رہاہو۔ کالم نگاری کے حوالے سے محمدثقلین رضا اکثر کالم نگاروں کے استادہونے کے مرتبے پر فائز ہیں ۔ حا ل احوال کے عنوان سے اب تک ہزاروں کالم لکھنے والے محمدثقلین رضابلاشبہ کالم نگاری کے میدان کے فاتح ہیں۔ ڈاکٹر زبیر اللہ شاہ نے اپنی خداد اد صلاحیتوں کی بنا پر صحافت کی دنیا میں بڑی شہرت حاصل کی ہے۔ نیوزایڈیٹر کے طورپر برادرم خرم شیرازی کے بارے میں کچھ سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ اپنے فرض کو کامل دیانت اور کمال محنت کے ساتھ اداکرنا ان پر ختم ہے۔ ایگزیکٹو ایڈیٹر کی حیثیت سے محترم ظفرحسین برنی کا وجود باعث برکت ہے۔ چوہدری یاسین عامر خوئے جستجوکی دولت سے مالا مال ہیں۔ کرائمز رپوٹر کے طورپر محسن رضاقریشی کے بارے میں 'میں اکثر کہاکرتاہوں کہ وہ آیا اورپھر چھاگیا ۔ اپنے صحافتی فرائض کی ادائیگی کیلئے ہمہ وقت مستعد رہنا کوئی ان سے سیکھے۔کمپوزنگ کے شعبے میں سبط الحسنین'مظہر عباس ' حسن رضاقریشی' معین عالم' فراز برنی'کی محنت اخبار کے نکھار کو دوچند کردیتی ہے۔ تنویراحمد بھٹی' واجد نواز ڈھول' شاہد محمود باروی' محبت کے استعارے ہیں۔ خالد شہزاد' محمدشہباز' شیخ ثنا اللہ' محمدنوید قادری' اخبار کے لئے رگوں میںدوڑنے والے خون کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ محمدابوبکر اورسیف اللہ کی موجودگی ادارے کے ہر رکن کیلئے آسودگی کا باعث بنتی ہے۔ معروف شاعر سید نجف علی شاہ بخاری کے قطعے باذو ق قارئین میں بہت مشہور ہیں۔ قطعہ نگار ی میں باقاعدگی قابل تحسین ہے
بھکرٹائمز سے وابستگی کی بناپر اکثر مجھ سے مختلف قسم کے سوالات کئے جاتے ہیں کہ مثلاً یہ کہ بھکرٹائمز میں صرف بھکرکی خبریں آنی چاہیں اس میں دیگر اضلاع یاصوبوں کی خبریں کیوں آتی ہیں جبکہ اخبار کانام بھکرٹائمز ہے۔میں نے سوال کرنے والے سے سوال کیا ہے کہ پاکستان ٹائمز میں کیا صرف پاکستان کی خبریں ہوتی ہیں کسی اورملک کی نہیں ہوتیں۔کیا نیویارک ٹائمز میں صرف نیویارک کی خبریں ہوتی ہیں۔ فرنیٹر پوسٹ میں صرف صوبہ سرحد کی خبریں شائع ہوتی ہیں۔ سائل میرے سوالات کو سن کر بولا نہیں ہرگزنہیں' پاکستان ٹائمز میں تو دیگرملکوں کی خبریں بھی ہوتی ہیں اورفرنیٹر پوسٹ میں دیگر صوبوں کی خبریں شائع ہوتی ہیں۔ میں نے جواباً کہا کہ اس تناظر میں بھکرٹائمز میں دیگر اضلاع کی خبریں شائع کرنے کی گنجائش بہرحال نکلتی ہے ۔میری بات سن کر سوال کرنیوالامطمئن ہوگیا۔ ایک دفعہ سوال کیاگیا کہ بھکرٹائمز میں سیاسی حوالے سے صرف نوانی گروپ کی اور مذہبی حوالے سے صرف اہل سنت کی خبریں شائع ہوتی ہیں میں نے سائل سے کہا کہ کوئی اخبار صرف ایک سیاسی دھڑے اورمذہبی حلقے کی کوریج کرکے ضلع کامقبول اخبار بن سکتاہے۔ سائل نے کہا بالکل نہیں ۔ میں نے کہا جب آپ بھکرٹائمز کو ضلع کامقبول ترین اخبار تسلیم کرتے ہیں تو دوسری طرف اس پر خاص سیاسی اور مذہبی حلقے کی چھاپ بھی لگاتے ہیں یہ دونوں متضاد چیزیں ہیں اللہ کے کرم سے بھکرٹائمز ہر طبقہ فکر میں یکساں مقبول ہے اورہرشعبہ ہائے زندگی کے افراد کی خبروں کو برابر شائع کرتاہے یہی وجہ ہے کہ اس کی اشاعت مسلسل بڑھتی جارہی ہے پھر میں نے اسی لمحے اعتراض کرنے والے شخص کے سامنے اسی دن کا بھکرٹائمز کھول کر رکھ دیا کہ آئو دیکھتے ہیں کہ آپ کے اعتراض میں کتنی صداقت ہے اس موقع پر معترض نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا اخبار میں مذہبی سیاسی حوالے سے کوئی جانبدار ی نہ تھی۔ میں نے اس شخص سے کہا کہ منفی پروپیگنڈے اورحقائق میں زمین وآسمان کافرق ہوتاہے۔ یہ سن کر وہ شخص قائل ہوگیا کہ بھکرٹائمز واقعی غیر جانبدار اخبار ہے۔
انسان خطا کا پتلا ہے بہتر ی کی گنجائش ہرجگہ پرموجودرہتی ہے میں یہ تو نہیں کہتا کہ بھکرٹائمز ہرحوالے سے اپنی معراج کو پہنچ گیا مگر اتنا ڈنکے کے چوٹ پر کہوں گا کہ سانول گروپ آف نیوز پیپرز کے زیراہتمام باقاعدگی سے شائع ہونیوالے روزنامہ بھکرٹائمز نے اپنے دم قد م سے ضلعی صحافت کے تن مردہ میں نئی پھونک دی ہے۔ بھکرسے متعدد روزناموں کی اشاعت کا کریڈٹ بھکرٹائمز کو جاتاہے کہ اس کی پیروی میں سالنامے 'سہ ماہی ' ماہانے اورپندرہ روزہ اخبارات اب روزنامے کی صورت میں سامنے آنے کی کوشش کرنے لگے ہیں۔ مسابقت کا جذبہ ایک مثبت جذبہ ہے اس کو پروان چڑھتے رہنا چاہئے مجھے ہمیشہ بھکرٹائمز کی خوب سے خوب تر اشاعت کے جذبے سے سرشار ادارے کے ہررکن کے ماتھے پر نت نئی منازل کو چھو لینے کا عزم جلی حروف میں لکھا دکھائی دیتا ہے۔ کسی بھی ادارے کے لئے یہ عمل نیک شگون ہوتاہے۔ میری دعا ہے کہ بھکرٹائمز جہد مسلسل کی ایسی ہی عظیم الشان مثالیں برابر قائم کرتا چلاجائے
جن کو طوفانوں سے ٹکرانے کی عادت ہوفراز
ان کی کشتی کو سمندر بھی دعا دیتے ہیں
