وزیراعلیٰ کے ادبی مقابلہ جات ایک نظر میں
قوم ایک طرف کئی جھمیلوں میں پڑی ہے‘کہیں میمو سکینڈل کاآوازہ ہے تو کہیں سے نیٹو حملے پر صدائے احتجاج بلند ہورہی ہے ‘بلکہ موخرالذکر واقعہ پر دنیابھر میں احتجاج جاری ہے ‘ہوسکتاہے کہ میمو سکینڈل بھی نیٹوحملہ کی وجہ سے پس پشت چلاجاتا لیکن میاں نوازشریف کی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے یہ معاملہ اب سپریم کورٹ پہنچاہوا ہے ۔ بہرحال جھمیلوں کاذکر کررہے تھے کہ قوم طرح طرح کے جھمیلوں میں گھری ہے ایسے میں سوچ کے تمام تر دھارے اوردائرے اسی طرف ہی لگے رہتے ہیں ۔ایسے میں دیگر عوامل کی طرف نظر تک نہیں جاپاتی۔ چند دن قبل ہمارے پاس ایک نوجوان آیا ‘ چونکہ وہ یونیفارم میں ملبوس تھا تو اندازہ ہوا کہ وہ کسی نہ کسی سکول کالج کاطالبعلم ہوگا۔ موصوف کے چہرے کی پریشانی ظاہرکررہی تھی کہ وہ کسی نہ کسی مشکل کاشکارہے۔ ابھی ہم اس سے معاملہ معلوم ہی کرنا چاہتے تھے کہ اس نے ہمارے سامنے ایک کاغذ رکھا جس پر اس کانام ولدیت کے ساتھ ساتھ یہ لکھا ہوا تھا کہ آپ فلاں تاریخ کو دس بجے سرگودھا پہنچیں۔ چونکہ وہ طالبعلم سرگودھا سے دواڑھائی سو کلومیٹر دور یعنی بھکر کا باسی ہے ۔ ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ اسے جس تاریخ کو یہ لیٹریاحکم نامہ ملااسی تاریخ کو ادبی مقابلے طے تھے۔ وہ جس وقت ہمارے پاس آیا اس وقت صبح کے دس بج رہے تھے۔ گویا طالبعلم کوعین وقت پر مطلع کیاگیا کہ وہ محض ایک گھنٹہ میں ہی دواڑھائی سو کلومیٹر کاسفر طے کرکے پہنچے۔ ایک اورستم ظریفی یہ بھی ہوئی کہ اسی لیٹر کے ذریعے آگاہ کیاگیا کہ آپ کو تین عنوانات میں سے کسی ایک پرتقریر کرنا ہوگی۔ گویا اس کے لئے سفرکرکے سرگودھاپہنچنا اور پھر انہی دوگھنٹوں میں تین عنوانات کی تیاری کرنا بھی ہے ۔ بات یہاں تک محدود نہیں رہی بلکہ ہم نے بچشم خود پوزیشنوں کے معاملے میں لین دین ہوتے دیکھا ہے۔ ججز کے حوالے سے بھی بے شمار شکایات سامنے ہیں کہ انہوں نے محض من پسندسکولوں(خاص طورپر پرائیویٹ سکولوں کے حوالے سے شکایات زیادہ ہیں) کو نواز نے کیلئے حق دار بچے پرکوئی نہ کوئی اعتراض لگادیاہے ۔ایک خاتون ٹیچر بتارہی تھیں کہ انکی بیٹی دسویں جماعت کی طالبہ ہے ۔ تقریری مقابلہ کے دوران بچی کا لب ولہجہ بھی بہترین تھا‘ ادائیگی ‘لہجے کا اتار چڑھائو‘تلفظ سبھی کچھ درست تھا تاہم جب نتائج کا اعلان کرنے کی باری آئی تو دو ججز نے طالبہ کے قدوقامت پراعتراض اٹھادیا کہ یہ اپنے قد کے حساب سے میٹرک کی طالبہ لگتی ہی نہیں ہے۔ بات یہاں تک ختم نہیں ہوئی ۔ احتجاج کرنے پر کہاگیا کہ آپ باقاعدہ ویری فیکشن کراکے لائیں۔ ججز کو باقاعدہ ہیڈمسٹریس کی مہر دستخط شدہ یعنی تصدیق شدہ لیٹر دکھایاگیا لیکن وہ نہ مانیں۔ اصل عقدہ تو اس وقت کھلا جب ایک پرائیویٹ سکول کی بچی کو اول قرار دیاگیا ۔ جبکہ اول قرا ر پانیوالی بچی کے لب ولہجہ ‘ادائیگی پر بھی اعتراضات اٹھائے گئے تھے۔ یہ رویہ پھر ڈویژنل مقابلوں میں بھی ہوا ۔
صاحبو! ظاہراً یہ باتیں پاکستانی معاشرہ میں بیحد معمولی حیثیت رکھتی ہیںتاہم اس کے اثرات کا اندازہ یوں لگایا جاسکتاہے کہ حق سے محروم طالبعلم کا ذہن ایسی باتوں سے بری طرح متاثرہوتا ہے اورپھر یہ تاثرتادیر قائم رہے تو پھر اس کی تعلیمی استعداد میں بھی کمی واقع ہوتی ہے۔ ہم نے ایسے کئی واقعات خود اپنی آنکھوں سے دیکھے بلکہ ماہرین تعلیم ‘ صوبائی سطح پرپالیسیاں مرتب کرنے والے بھی آگاہ ہوتے ہیں لیکن ستم ظریقی ملاحظہ ہو کہ کبھی کسی طرف سے ایکشن نہیں لیاگیا۔
سیانے کہتے ہیں کہ جاہل اورکم علم سے کیا شکوہ کرنا کہ اسے اول تو خبر نہیں ہوتی اگر ہوتو وہ اتنی استعداد نہیں رکھتا کہ کچھ کہہ سن سکے۔ لیکن علم وقوت رکھنے والا اگر اسی روئیے کا مظاہرہ کرے جو کم علم‘جاہل کاہوتاہے توپھر دونوں میں تفریق کرتے ہوئے جاہل ‘کم علم کو ہی ترجیح دی جائیگی۔ نجانے کیوں ہمیں اس قسم کے مثبت مقابلہ جات پر ایسا ہی گمان ہونے لگتا ہے کہ جس بنیاد پر معاشرہ کی تخلیق طے پاتی ہے وہ بھی جھوٹ فریب ‘دھوکہ دہی پر ہی پنپ رہی ہو تو پھر معاشرے سے کیا گلہ کہ‘ بنیاد میں خالص مصالے کی بجائے ملاوٹ شدہ میٹریل استعمال ہوا ۔
اب یہ کہہ کر دلاسا دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اگرآپ کے بچے ‘بچی کی پوزیشن نہیں آئی تو کیا قیامت آگئی‘ کہنے والا تو کہہ کرچلاجاتاہے لیکن اسے خبر نہیں ہوتی کہ اس قسم کی ناانصافی کے اثرات کسی بھی طالبعلم کے تعلیمی کیرئر پر بھی بری طرح مرتب ہوتے ہیں۔ وہ طالبعلم اگر حوصلہ نہ رکھتاہو تو مایوسی کاشکارہوجاتاہے اس صورت میں بھی اس کی مجموعی تعلیمی حالت متاثرہوتی ہے تاہم اگر طالبعلم میں حوصلہ ہو مگر متعدد بار کی زیادتیوں کے بعد بالآخر وہ بھی اسی راہ کاراہی بن جاتاہے ۔ اس صورت میں وہ پوزیشن ‘انعام تو لے لیتاہے لیکن وہ ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھ رہاہوتا ہے جو سراسر جھوٹ فریب اوردھوکہ دہی پرمبنی ہے۔ ایسے میں اس کی یہ معمولی جرم اور چوری چکاری ‘ دھوکہ دہی‘فریب ڈاکہ سبھی ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ سیانے کہتے ہیں جرم چاہے چھوٹا ہو یا برا ‘لیکن مجرم ایک طرح کے ہوتے ہیں‘ بس دل پر لگنے والے نقطے کافرق ہے جو معمولی نقطہ سے ہوتاہوا جب وسعت اختیارکرتا ہے تو پھر دل سیاہی مائل ہونے پر برائی بھی اچھائی کی مانند لگنے لگتی ہے۔
ہم پنجاب کے مسٹر میرٹ ‘وزیراعلیٰ پنجاب سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ جہاں دیگر کئی طرح کے جھمیلوں میں گھرے ہیں وہاں انہیں اپنے صوبہ میں جاری ان مقابلہ جات کی طرف بھی نظردوڑانا ہوگی یوں بھی ان کے فرائض دوگنا ہوگئے کہ ان ادبی ‘کھیلوں کے مقابلہ جات کو ’’وزیراعلیٰ ادبی مقابلہ جات ‘‘ کانام دیاگیا ہے۔ خدا کرے کہ وہ کچھ وقت تعلیم ‘تعلم کے حوالے سے بھی نکال سکیں۔
صاحبو! ظاہراً یہ باتیں پاکستانی معاشرہ میں بیحد معمولی حیثیت رکھتی ہیںتاہم اس کے اثرات کا اندازہ یوں لگایا جاسکتاہے کہ حق سے محروم طالبعلم کا ذہن ایسی باتوں سے بری طرح متاثرہوتا ہے اورپھر یہ تاثرتادیر قائم رہے تو پھر اس کی تعلیمی استعداد میں بھی کمی واقع ہوتی ہے۔ ہم نے ایسے کئی واقعات خود اپنی آنکھوں سے دیکھے بلکہ ماہرین تعلیم ‘ صوبائی سطح پرپالیسیاں مرتب کرنے والے بھی آگاہ ہوتے ہیں لیکن ستم ظریقی ملاحظہ ہو کہ کبھی کسی طرف سے ایکشن نہیں لیاگیا۔
سیانے کہتے ہیں کہ جاہل اورکم علم سے کیا شکوہ کرنا کہ اسے اول تو خبر نہیں ہوتی اگر ہوتو وہ اتنی استعداد نہیں رکھتا کہ کچھ کہہ سن سکے۔ لیکن علم وقوت رکھنے والا اگر اسی روئیے کا مظاہرہ کرے جو کم علم‘جاہل کاہوتاہے توپھر دونوں میں تفریق کرتے ہوئے جاہل ‘کم علم کو ہی ترجیح دی جائیگی۔ نجانے کیوں ہمیں اس قسم کے مثبت مقابلہ جات پر ایسا ہی گمان ہونے لگتا ہے کہ جس بنیاد پر معاشرہ کی تخلیق طے پاتی ہے وہ بھی جھوٹ فریب ‘دھوکہ دہی پر ہی پنپ رہی ہو تو پھر معاشرے سے کیا گلہ کہ‘ بنیاد میں خالص مصالے کی بجائے ملاوٹ شدہ میٹریل استعمال ہوا ۔
اب یہ کہہ کر دلاسا دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اگرآپ کے بچے ‘بچی کی پوزیشن نہیں آئی تو کیا قیامت آگئی‘ کہنے والا تو کہہ کرچلاجاتاہے لیکن اسے خبر نہیں ہوتی کہ اس قسم کی ناانصافی کے اثرات کسی بھی طالبعلم کے تعلیمی کیرئر پر بھی بری طرح مرتب ہوتے ہیں۔ وہ طالبعلم اگر حوصلہ نہ رکھتاہو تو مایوسی کاشکارہوجاتاہے اس صورت میں بھی اس کی مجموعی تعلیمی حالت متاثرہوتی ہے تاہم اگر طالبعلم میں حوصلہ ہو مگر متعدد بار کی زیادتیوں کے بعد بالآخر وہ بھی اسی راہ کاراہی بن جاتاہے ۔ اس صورت میں وہ پوزیشن ‘انعام تو لے لیتاہے لیکن وہ ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھ رہاہوتا ہے جو سراسر جھوٹ فریب اوردھوکہ دہی پرمبنی ہے۔ ایسے میں اس کی یہ معمولی جرم اور چوری چکاری ‘ دھوکہ دہی‘فریب ڈاکہ سبھی ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ سیانے کہتے ہیں جرم چاہے چھوٹا ہو یا برا ‘لیکن مجرم ایک طرح کے ہوتے ہیں‘ بس دل پر لگنے والے نقطے کافرق ہے جو معمولی نقطہ سے ہوتاہوا جب وسعت اختیارکرتا ہے تو پھر دل سیاہی مائل ہونے پر برائی بھی اچھائی کی مانند لگنے لگتی ہے۔
ہم پنجاب کے مسٹر میرٹ ‘وزیراعلیٰ پنجاب سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ جہاں دیگر کئی طرح کے جھمیلوں میں گھرے ہیں وہاں انہیں اپنے صوبہ میں جاری ان مقابلہ جات کی طرف بھی نظردوڑانا ہوگی یوں بھی ان کے فرائض دوگنا ہوگئے کہ ان ادبی ‘کھیلوں کے مقابلہ جات کو ’’وزیراعلیٰ ادبی مقابلہ جات ‘‘ کانام دیاگیا ہے۔ خدا کرے کہ وہ کچھ وقت تعلیم ‘تعلم کے حوالے سے بھی نکال سکیں۔
